امید پہ "پاکستان" قائم ہے

0 1,039

ایجبسٹن ٹیسٹ کے پہلے دو روز کے شاندار کھیل اور پھر تیسرے دن 103 رنز کی برتری حاصل کرنے کے بعد پاکستان کے شائقین بہت مطمئن تھے کہ اب گرفت مضبوط تر ہو جائے گی لیکن ایلسٹر کک اور ایلکس ہیلز نے پاکستانیوں کے سب ارمان ٹھنڈے کردیے ہیں۔ بغیر کسی وکٹ کے 120 رنز کی شراکت داری تو پاکستانی برتری کو خاطر میں ہی نہیں لائی۔ جب تیسرے دن کا کھیل ختم ہوا تو انگلستان پوری 10 وکٹوں کے ساتھ 17 رنز کی برتری حاصل کرچکا تھا جو پاکستان کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ لیکن امید کا دامن اتنی جلدی مت چھوڑیں، ایسا کبھی ہوا نہیں ہے کہ پاکستان انگلستان کے دورے پر ہو اور پہلی اننگز میں 100 رنز کی برتری حاصل کرنے کے باوجود مقابلہ ہار گیا ہو۔

پاکستان نے انگلستان میں کل 9 ایسے ٹیسٹ کھیلے ہیں جہاں اس نے پہلی اننگز میں 100 یا زیادہ رنز کی برتری حاصل کی۔ ان میں سے پانچ مرتبہ پہلے بلے بازی خود کی اور چار مقابلے ایسے ہیں جن میں جاری ایجبسٹن کی طرح پاکستان نے دوسری باری لی۔ ان 9 میں سے چار مقابلے ایسے ہیں، جو پاکستان نے جیتے جبکہ چار بغیر کسی نتیجے تک پہنچے تمام ہوئے۔ باقی رہ گیا ایک ٹیسٹ تو وہ ایسا تھا جس کی آج تک سمجھ نہیں آئی کہ وہ ڈرا ہوا تھا کہ پاکستان کو شکست ہوئی تھی؟ جی ہاں! ہم 2006ء کے بدنام زمانہ اوول ٹیسٹ ہی کی بات کر رہے ہیں جہاں امپائر ڈیرل ہیئر کی ہٹ دھرمی اور پاکستانی کپتان اور انتظامیہ کی نااہلی کی وجہ سے کرکٹ مذاق بن گئی تھی۔ پہلے تو انگلستان کو کامیابی دی گئی، پھر بین الاقوامی کرکٹ کونسل نے مقابلے کو ڈرا قرار دیا اور چند سال بعد دوبارہ آئی سی سی کو یہی اوول ٹیسٹ یاد آ گیا اور اس نے نتیجہ ایک مرتبہ پھر انگلستان کے حق میں دے دیا۔ ایسی کامیابی سے تو ہم لنڈورے ہی بھلے۔

یعنی ہم کسی حد تک کہہ سکتے ہیں کہ انگلستان کے میدانوں پر پاکستان نے جب بھی 100 یا زیادہ رنز کی برتری لی، اسے شکست نہیں ہوئی۔

پاکستان نے پہلے بلے بازی کرتے ہوئے 1982ء کے لارڈز ٹیسٹ میں 201 رنز کی برتری حاصل کی تھی۔ یہ محسن خان کی ڈبل سنچری والا ٹیسٹ تھا کہ جس میں 428 رنز کے جواب میں انگلستان صرف 227 رنز بنا سکا اور فالو آن کرتے ہوئے بھی اس کی تان 276 رنز پر ٹوٹ گئی۔ پاکستان کو جیتنے کے لیے 76 رنز کا ہدف ملا جو اس نے بغیر کسی نقصان کے حاصل کرلیا۔ یہ واحد مقابلہ ہے کہ جس میں پاکستان نے پہلے بیٹنگ کی ہو، تہرے ہندسے کی برتری حاصل کی ہو اور مقابلہ جیت گیا ہو۔ ایسے باقی تینوں مقابلے برابر ہوئے ہیں۔

البتہ جاری ایجبسٹن ٹیسٹ کی طرح جب پاکستان نے دوسری باری لی تو اس کا ریکارڈ شاندار ہو جاتا ہے۔ 1987ء میں ہیڈنگلے ٹیسٹ میں پاکستان نے انگلستان کے 136 رنز کے جواب میں 353 رنز بنائے اور 217 رنز کی برتری حاصل کرکے ایک اننگز اور 18 رنز سے کامیابی حاصل کی۔

پھر 1992ء میں اوول میں پاکستان نے انگلستان کے 207 رنز کے بعد 380 رنز جوڑے اور پھر انگلستان کو 174 رنز پر ڈھیر کرکے باآسانی 10 وکٹوں سے مقابلہ اور سیریز جیت لی۔

Alec-Stewart

ٹھیک چار سال بعد اسی میدان پر پاک-انگلستان مقابلے میں پاکستان نے میزبان کے 326 رنز کے جواب میں سعید انور اور سلیم ملک کی سنچریوں کی بدولت 521 رنز بنائے اور پھر دوسری اننگز میں انگلستان کو 242 رنز پر ٹھکانے لگاکر مقابلہ 10 وکٹوں سے جیت لیا۔

یعنی واحد صورت وہ "منحوس" اوول ٹیسٹ والی رہ جاتی ہے کہ جہاں پاکستان مقابلے کی بہترین پوزیشن میں تھا لیکن بال ٹیمپرنگ کے الزام پر کپتان انضمام الحق کا "ٹیمپر لوز" ہوگیا اور مقابلہ نہ کھیلنے کا بچکانہ فیصلہ کیا گیا، جس کا خمیازہ بھی بھگتنا پڑا۔

بہرحال، ایجبسٹن ٹیسٹ میں تین دن کے کھیل کے بعد ہم کہہ سکتے ہیں کہ انگلستان نے اینٹ کا جواب پتھر سے دیا ہے۔ لیکن جو افراد امید کا دامن چھوڑ بیٹھے ہیں، ان کے لیے تاریخ میں بڑا سبق ہے۔