آسٹریلیا کے لیے اصل خطرہ پاکستان کے تیز گیندباز

0 1,019

پاکستان کے لیے سال 2016ء بہت اہمیت کا حامل ہے، وہ ایک بہت بڑی ٹیم کا مقابلہ کر چکا ہے، یعنی انگلستان کا اور ایک ابھی باقی ہے یعنی آسٹریلیا۔ رواں سال کے اواخر میں پاکستان سات سال بعد سرزمین آسٹریلیا پر قدم رکھے گا۔ ایک ایسی جگہ جہاں پاکستان نے آخری مرتبہ کوئی واحد ٹیسٹ مقابلہ بھی 21 سال پہلے جیتا تھا بلکہ 52 سالہ تاریخ میں 32 میں سے صر ف 4 ٹیسٹ ہی میں کامیابی حاصل کی ہے، 7 بغیر کسی نتیجے تک پہنچے تمام ہوئی اور باقی 21 مقابلوں میں شکست کھائی ہے۔ لیکن پاکستان کی گزشتہ دو سال کی کارکردگی دیکھی جائے تو لگتا ہے کہ اس بار ماضی نہیں دہرائے گا۔ آسٹریلیا کے تیز گیندباز پیٹر سڈل بھی اس خطرے سے آگاہ کر رہے ہیں جو میزبان کو پاکستان سے درپیش ہوگا۔ کہتے ہیں کہ پاکستان آسٹریلیا کا مقابلہ کرنے کے لیے ماضی کی بہ نسبت کہیں زیادہ اہل دکھائی دیتا ہے خاص طور پر ان کے تیزگیندباز اور ساتھ ہی لیگ اسپنر یاسر شاہ کہ جن کی کارکردگی پاکستان کو ٹیسٹ میں نمبر ایک بنانے میں مددگاررہی۔

کرکٹ آسٹریلیا سے بات کرتے ہوئے پیٹر سڈل نے کہا کہ "گزشتہ 12 ماہ میں پاکستان نے بہترین کرکٹ کھیلی ہے، اور اہم یہ کہ وہ ماضی کے برعکس تسلسل کے ساتھ اچھا کھیل رہے ہیں۔ ان کے پاس اسٹار کھلاڑی ہیں، جو طویل عرصے سے ٹیم کا حصہ ہیں اور اب ان کے دستے میں بہت تیزی سے تبدیلیاں بھی نہیں ہو رہی۔ 13، 14 کھلاڑیوں پر مشتمل ایک مضبوط دستہ تشکیل پا چکا ہے جو کسی کے لیے بھی خطرہ بن سکتے ہیں۔ چند باؤلرز کے زخمی ہونے کے بعد بھی ان کے پاس ایسے باؤلرز ہیں جو آتے ہیں اور حریف کے لیے مشکلات کھڑی کرتے ہیں۔ ان کے اچھے تیز گیندباز بھی ہیں جو آسٹریلیا کو دباؤ میں لا سکتے ہیں، یہی ہمارے لیے بڑا چیلنج ہوگا۔"

پاکستان کے 'پیس اٹیک' کے اہم رکن وہاب ریاض اور محمد عامر ہیں۔ وہاب جب آخری بار آسٹریلیا میں کھیلے تھے تو انہوں نے ایڈیلیڈ میں ہونے والے ورلڈ کپ کوارٹر فائنل میں مائیکل کلارک اور شین واٹسن کے خلاف تاریخی باؤلنگ اسپیل کیا تھا۔ محمد عامر 2009-10ء میں ہونے والے آخری دورۂ آسٹریلیا میں دو ٹیسٹ کھیلے تھے اور آٹھ وکٹیں حاصل کی تھیں۔

برسبین میں ہونے والا پہلا پاک-آسٹریلیا ٹیسٹ ڈے نائٹ ہوگا، جہاں سوئنگ کے لیے سازگار حالات سے پاکستانی باؤلرز کافی فائدہ اٹھا سکیں گے۔ آسٹریلیا اورانگلینڈ کی وکٹیں کافی حد تک ایک جیسی ہیں اس لیے انگلستان میں بہتر کارکردگی آسٹریلیا میں بھی اچھی پرفارمنس کا اشارہ ہو سکتا ہے۔

پیٹر سڈل نے عزم ظاہر کیا کہ گو کہ پاکستان اس وقت درجہ بندی میں نمبر ایک ہے، اور تھوڑے پوائنٹس کے فرق سے آسٹریلیا تیسرے نمبر پر ہے لیکن آئندہ سیزن میں وہ دوبارہ سرفہرست آ سکتے ہیں کیونکہ پاکستان کے علاوہ جنوبی افریقہ سے بھی تین ٹیسٹ کھیلنے ہیں جہاں اچھی کارکردگی ہمارے لیے کافی مددگار ثابت ہوگی۔

آسٹریلوی تیز گیندباز نے پاکستان کے چند کھلاڑیوں کی بڑی تعریف کی، بالخصوص یاسر شاہ کی۔ انہوں نے کہا کہ "پاکستان کے پاس یاسر شاہ کی صورت میں ایک ورلڈ کلاس اسپنر ہے، وہ ناقابل یقین باؤلر ہیں۔ ان کا ریکارڈ بھی زبردست ہے اور وہ بہت تیزی سے 100 وکٹیں کے قریب پہنچ رہے ہیں۔ عظیم لیگ اسپنر شین وارن نے ان کے ساتھ کام کیا ہے اور ہمیں بھی بتایا ہے کہ وہ کتنے اچھے باؤلر ہیں۔پھر ان کے پاس مصباح الحق اور یونس خان ہیں جو مڈل آرڈر کو جوڑے رکھتے ہیں۔

پاک-آسٹریلیا تین ٹیسٹ مقابلوں کی سیریز 15 دسمبر سے برسبین میں شروع ہوگی جس کے بعد روایتی باکسنگ ڈے ٹیسٹ ملبورن میں اور سال نو کا ٹیسٹ 3 جنوری سے سڈنی میں ہوگا۔