وارنر آسٹریلیا کی کپتانی کے لیے تیار

0 1,025

اتوار کو سری لنکا کے خلاف سیریز کے تیسرے ایک روزہ مقابلے کے لیے آسٹریلیا کی قیادت ڈیوڈ وارنر کے سپرد کی گئی ہے۔ یوں وارنر آسٹریلوی کرکٹ ٹیم کے 23ویں کپتان ہونے کا اعزاز حاصل کریں گے۔

سری لنکا کے دورے پر موجود آسٹریلیا کو ٹیسٹ سیریز میں کلین سوئپ کی خفت اٹھانی پڑی ہے۔ سیریز کے تینوں ٹیسٹ مقابلوں میں سری لنکا نے واضح فرق سے کامیابی حاصل کی اور اب آسٹریلیا کے سامنے ایک روزہ سیریز کی صورت میں یہ حساب بے باق کرنے کا موقع ہے۔ پہلے ایک روزہ میں سری لنکا کا پلڑا بھاری رہا تھا، لیکن آسٹریلیا کسی نہ کسی طرح جیت گیا البتہ دوسرے مقابلے میں سری لنکا کی شاندار کامیابی نے سیریز 1-1 سے برابر کردی ہے۔ اب تیسرا مقابلہ اتوار، 28 اگست کو دمبولا میں کھیلا جائے گا۔جس کے لیے وارنر کا ماننا ہے کہ آئی پی ایل میں سن رائزر حیدرآباد کی قیادت سے انہیں اپنی قائدانہ صلاحیتوں کا علم ہوا ہے اور وہ اسی تجربے کی بنیاد پر سیریز کے بقیہ میچوں میں یہ کردار نبھانے کی کوشش کریں گے۔

وارنر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’گزشتہ چند برسوں میں، آئی پی ایل کے تجربے نے مجھے اپنے اندر جھانکنے کا موقع دیا۔ آپ کو ہمیشہ ہی لگتا ہے کہ آپ میں کپتانی اور قیادت کی صلاحیت موجود ہے، لیکن آپ کے ساتھیوں کا فیڈبیک اور چیلنج درپیش ہونے کی صورت میں اُن کا آپ کے قریب ہونا اصل چیز ہوتی ہے۔ مجھے گزشتہ کئی برسوں کے دوران، آئی پی ایل میں بہت اچھا ردعمل ملا اور اب وقت ہے کہ میں اپنی توجہ اس مقابلے کی طرف کروں اور دیکھوں کہ بطور کپتان میں کیا کرسکتا ہوں۔‘‘

وارنر کے جارحانہ رویے کے باعث انہیں قومی کرکٹ ٹیم کا کپتان بنائے جانے پر سوالات اٹھتے رہے ہیں، اور ایشیز میں آسٹریلیا کی شکست کے بعد جب مائیکل کلارک کو رخصت ہونا پڑا تو اسٹیون اسمتھ کے نائب کے طور پر وارنر کو منتخب کرنے کا فیصلہ ہر ایک کے لیے قابلِ قبول نہیں تھا۔ لیکن گزشتہ کچھ عرصے میں نظم و ضبط کی پابندی، ذمے داری کے مظاہرے اور اب قیادت کے حصول نے وارنر کے کاندھوں پر بھاری بوجھ ڈال دیا ہے۔

آسٹریلوی کرکٹ بورڈ نے قومی ٹیم کے کپتان اسٹیون اسمتھ کو اگلی سیریز کے لیے تازہ دم ہونے کی خاطر دوران سیریز ہی گھر بھیجنے کا عجیب فیصلہ کیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ وارنر کو اضافی ذمہ داری نبھانی ہوگی، جو کہتے ہیں کہ ’’یہ میرے لیے بہت بڑا اعزاز ہے، میں نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ میں میدان میں کھڑا اپنی قومی ٹیم کی قیادت کر رہا ہوں گا۔ میرے خیال میں، میں جب بھی میدان میں اترتا ہوں تو اپنا سو فیصد دیتا ہوں، اور ساتھیوں کی مدد کی کوشش کرتا ہوں، اور اگلے میچ میں بھی یہ معمول ایسا ہی رہے گا۔‘‘