سرفراز کی سنچری رائیگاں، شکست پاکستان کے دامن سے چمٹ گئی
ٹیسٹ میں نمبر ایک پاکستان ون ڈے میں بھنور میں پھنس چکا ہے کہ جہاں انگلستان کے ہاتھوں اسے مسلسل دوسرے ایک روزہ میں بھی شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ لارڈز کے تاریخی میدان پر سرفراز احمد کی یادگار سنچری بھی پاکستان کو شکست سے نہ بچا سکی کہ جو 252 رنز کے ہدف کا دفاع کرنے میں ناکام رہا اور انگلستان نے چار وکٹوں سے جیت کر سیریز میں دو-صفر کی برتری حاصل کرلی ہے۔ یہ پاکستان کے خلاف گزشتہ 11 مقابلوں میں انگلستان کی دسویں کامیابی ہے جو پاکستان کی شکست خوردہ ذہنیت اور انگلستان کے غلبے کو ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے۔
انگلستان نے ہدف کا تعاقب شروع کیا تو اننگز کی دوسری ہی گیند پر محمد عامر نے جیسن روئے کو بولڈ کرکے پہلا وار کردیا۔ اس ابتدائی وکٹ کے بعد ایلکس ہیلز اور جو روٹ نے سنبھل کر کھیلنا شروع کیا۔ نویں اوور میں مجموعہ 35 تک پہنچا تو عماد وسیم نے ہیلز کو واپسی کی راہ دکھا دی۔ مقابلہ دلچسپ مرحلے میں داخل ہوتا دکھائی دے رہا تھا اور اسے مزید پاکستان کے حق میں جھکنے سے روکنے کے لیے روٹ اور کپتان ایون مورگن نے میدان سنبھالا۔ دونوں 21 اوورز تک ڈٹے رہے اور 112 رنز کی شراکت داری کے ذریعے پاکستان کے بڑھتے قدم روک دیے۔ مورگن 68 رنز پر عماد وسیم کا دوسرا شکار بنے۔ انگلستان کو آخری 20 اوورز میں 111 رنز کی ضرورت تھی اور پاکستان کو فوری طور پر وکٹوں کی لیکن بین اسٹوکس کی 30 گیندوں پر 42 رنز کی اننگز نے ایسا نہ ہونے دیا۔ بالآخر نوجوان حسن علی نے اسٹوکس کو آؤٹ کیا لیکن اس سے پہلے ایک تاریخی لمحہ آیا۔ اننگز کے 36 ویں اوور میں تھرڈ امپائر نے حسن کی پانچویں گیند کو نو-بال قرار دیا جو کرکٹ تاریخ میں پہلا واقعہ تھا کہ جب تھرڈ امپائر نے کسی گیند کو نو-بال قرار دیا ہو۔
مقابلہ آخری 10 اوورز میں داخل ہوا تو جوس بٹلر رن آؤٹ ہوگئے لیکن جو روٹ انگلستان کو فتح کے بہت قریب پہنچا چکے تھے۔ اسے صرف 33 رنز کی ضرورت تھی۔ یہاں معین علی نے اسکور کو آہستہ آہستہ آگے بڑھایا یہاں تک کہ وہاب ریاض نے جو روٹ کی صورت میں دن کی واحد کامیابی حاصل کی۔ روٹ نے 108 گیندوں پر 89 رنز بنائے اور شعیب ملک کے ہاتھوں کیچ آؤٹ ہوئے لیکن اس وکٹ کا پاکستان کو کوئی فائدہ نہ مل سکا۔ کرس ووکس نے 48ویں اوور کی تیسری گیند پر یاسر شاہ کو چوکا لگاکر میچ کا فیصلہ کردیا۔
پاکستان نے پہلے مقابلے میں ٹیم کے انتخاب پر ہونے والی "ماہرانہ" تنقید کے بعد یاسر شاہ کو دوسرے مقابلے میں کھلایا تھا جو 9.3 اوورز میں 62 رنز دے کر کوئی وکٹ حاصل نہ کر سکے۔ عماد وسیم نے 38 رنز دے کر دو کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا جبکہ ایک، ایک وکٹ محمد عامر، حسن علی اور وہاب ریاض کو ملی۔
قبل ازیں، پاکستان کے کپتان اظہر علی نے مسلسل دوسرا ٹاس جیتا اور پہلے بلے بازی کا ہی فیصلہ کیا، جو ہرگز اچھا ثابت نہیں ہوا۔ ابتدا ہی میں سمیع اسلم، شرجیل خان اور اظہر علی کی وکٹیں گرگئیں۔ جن میں سمیع نے صرف ایک رن بنایا جبکہ باقی دو صفر کی ہزیمت سے دوچار ہوئے۔ صرف دو رنز پر تین وکٹیں گرنے کے بعد بابر اعظم اور وکٹ کیپر سرفراز احمد نے صورت حال کو سنبھالنے کی کوشش کی اور 64 رنز کی شراکت داری قائم کی۔ البتہ بابر اعظم 30 رنز سے آگے نہ جا سکے۔ شعیب ملک کے ساتھ مل کر سرفراز نے مزید 59 رنز کا اضافہ کیا۔ اس رفاقت میں دراڑ مارک ووڈ نے ڈالی، جنہوں نے 28 رنز بنانے والے شعیب ملک کو آؤٹ کیا۔ یوں 27 ویں اوور میں صرف 125 رنز پاکستان کی آدھی ٹیم رخصت ہو چکی تھی۔ صورت حال یہ ہوگئی تھی کہ پاکستان کے 200 رنز تک پہنچنے کے امکانات بھی خال خال دکھائی دیتے تھے۔
لیکن عماد وسیم اور سرفراز احمد نے کاندھوں پر موجود بھاری ذمہ داری کو نبھایا اور پاکستانی اننگز کی سب سے بڑی ساجھے داری قائم کی۔ انہوں نے چھٹی وکٹ پر 77 رنز جوڑے اور پاکستان کو 200 رنز کا سنگ میل عبور کروایا۔ سرفراز نے 41 ویں اوور میں اپنی سنچری مکمل کی اور تاریخ میں اپنا نام لکھوا لیا۔ وہ انگلستان کی سرزمین پر سب سے لمبی ون ڈے اننگز کھیلنے والے پاکستانی وکٹ کیپر بنے اور لارڈز میں کسی بھی پاکستانی بلے باز کی پہلی سنچری بھی بنائی۔ سنچری بناتے ہی تیسری گیند پر سرفراز کو امپائر نے ایل بی ڈبلیو قرار دے دیا جس فیصلے کے خلاف سرفراز نے نظرثانی کی درخواست کی، جو درست ثابت ہوئی۔ گیند لیگ اسٹمپ سے باہر جا رہی تھی، چنانچہ امپائر نے تو اپنا فیصلہ واپس لے لیا لیکن سرفراز اس کا زیادہ فائدہ نہ اٹھا سکے۔ اگلے ہی اوور میں عادل رشید نے انہیں آؤٹ کردیا۔ البتہ ایک کڑے وقت میں 105 رنز کی اننگز نے پاکستان کسی عزت رکھ لی۔ دوسرے کنارے پر کھڑے عماد وسیم نے باقی ماندہ کھلاڑیوں کی مدد سے اسکور بورڈ کو متحرک رکھا یہاں تک کہ آخری اوور میں محمد عامر کے آؤٹ ہوتے ہی اننگز کا خاتمہ ہوگیا۔ عماد وسیم ناقابلِ شکست 63 رنز کے ساتھ میدان سے واپس آئے۔
انگلستان کی جانب سے ووڈ اور ووکس نے تین تین، جبکہ پلنکٹ نے دو اور عادل راشد نے ایک وکٹ حاصل کی۔
اگرچہ اس میچ کی خاص بات سرفراز احمد کے 105 رنز تھے، لیکن چونکہ ان کی ٹیم فاتح نہ ہوسکی، اس لیے مین آف دی میچ کا اعزاز 89 رنز بنانے والے روٹ کے حصے میں آیا۔
مجموعی طور پر پاکستانی کی بلے بازی کا حال بہت برا دکھائی دیا۔ صرف چار کھلاڑی دہرے ہندسے میں داخل ہوئے جبکہ اتنے ہی صفر پر آؤٹ ہوئے۔ مجموعی اسکور 251 میں سے 226 رنز صرف تو چار کھلاڑیوں، ابر اعظم، سرفراز احمد، شعیب ملک اور عماد وسیم، نے ہی بنائے تھی یعنی باقی پوری ٹیم نے صرف 25 رنز کا حصہ ڈالا۔
اب پاکستان کے لیے سیریز میں واپس آنا خاصا مشکل دکھائی دیتا ہے۔ انگلستان کو باقی تین میں سے صرف ایک مقابلے میں کامیابی کی ضرورت ہے اور یوں وہ سیریز جیت جائے گا جبکہ اظہر علی کو ضرورت ہے ایک معجزے کی جس کی مدد سے وہ آئندہ تینوں میچز جیتے اور پاکستان کو درجہ بندی میں مزید زوال سے بچا سکیں۔