پاکستان چاروں خانے چت، انگلستان مقابلے کے ساتھ سیریز بھی لے اڑا

0 1,498

انگلستان نے پہلے تین مقابلوں میں ہی پاکستان کو ایک روزہ سیریز کی دوڑ سے باہر کردیا ہے، اور جیسی کامیابی ٹرینٹ برج میں سمیٹی ہے، اس کے بعد کہا جا سکتا ہے کہ کافی حد تک ٹیسٹ ناکامی کا داغ دھو دیا ہے۔ ناٹنگھم میں ٹاس جیتنے کے بعد انگلستان مقابلے پر ایسا چھایا کہ ریکارڈ پکے ہوئے پھلوں کی طرح اس کی گود میں گرتے رہے یہاں تک کہ وہ 444 رنز کا مجموعہ تک اکٹھا کر گیا جو ایک روزہ کی تاریخ میں کسی بھی اننگز کا سب سے بڑا اسکور ہے۔ اس میں ایلکس ہیلز کی 171 رنز کی ریکارڈ اننگز بھی شامل ہے اور جو روٹ، جوس بٹلر اور ایون مورگن کی شاندار بلے بازیاں بھی۔ دوسری جانب پاکستان مظلومیت کی تصویر بنا رہا کہ ایک طرف جہاں اس کے گیندبازوں کا برا حال دکھائی دیا وہیں بلے باز بھی کچھ خاص کارنامے نہ دکھا سکے۔ شرجیل خان نے کچھ بلّے چلائے اور آخر میں محمد عامر نے ناامیدی کے عالم میں کچھ ہاتھ پیر مار لیے، جن کا فائدہ محض اتنا ہوا کہ پاکستان تاریخ کی بدترین شکست سے دوچار نہیں ہوا۔ ورنہ کارکردگی نے کوئی کسر تو نہ چھوڑی تھی۔

انگلستان کے کپتان ایون مورگن نے سیریز میں اپنا پہلا ٹاس جیتا اور بلے بازی کے لیے خود اترنے کا فیصلہ کیا۔ پاکستان نے ایک مرتبہ پھر جیسن روئے کی وکٹ تو جلد حاصل کرلی لیکن "اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی"۔ ایلکس ہیلز اور جو روٹ نے پاکستان کے باؤلرز کو چھٹی کا دودھ یاد دلا دیا، خاص طور پر ہیلز، جنہوں نے ناقابل یقین بلے بازی دکھائی۔ 83 گیندوں پر سنچری مکمل کرنے کے بعد تو وہ محض لہو گرمانے کے لیے پاکستانی باؤلرز کو پیٹ رہے تھے۔ ان کی بدقسمتی یہ رہی کہ وہ عین اس وقت آؤٹ ہوگئے جب ڈبل سنچری ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل لگتی تھی۔ 122 گیندوں پر 171 رنز کی اننگز حسن علی کے ہاتھوں اختتام کو پہنچی۔ ہیلز کی اننگز میں چھکے تو صرف 4 تھے لیکن انہوں نے 22 مرتبہ گیند کو باؤنڈری کی راہ ضرور دکھائی۔ اگلے ہی اوور میں محمد نواز نے 85 رنز بنانے والے جو روٹ کو سنچری سے قبل آؤٹ کردیا۔

پاکستان یہاں مقابلے میں واپس آ سکتا تھا لیکن ان دونوں کا آؤٹ ہونا پاکستان کے لیے مزید بری خبر ثابت ہوا۔ اگلے 12 اوورز میں جوس بٹلر اور ایون مورگن نے 161 رنز بنا کر پاکستان کی رہی سہی امید بھی ختم کردی۔ بٹلر نے صرف 51 گیندوں پر 90 رنز بنائے اور مورگن 27 گیندوں پر 57 رنز کے ساتھ ناقابل شکست رہے۔ دونوں کے درمیان 161 رنز کی ناقابل شکست رفاقت رہی جس میں پاکستانی باؤلرز کی حالت قابل رحم دکھائی دی۔

وہاب راض نے 10 اوورز میں 110 رنز دیے اور یوں پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار کسی ون ڈے میں 100 سے زیادہ رنز کھانے والے گیندباز بن گئے۔ انہوں نے 93 رنز کا اپنا ہی بنایا گیا ریکارڈ توڑا۔ یاسر شاہ کے 6 اوورز میں 48 اور شعیب ملک کو 3 اوورز میں ہی 44 رنز پڑے۔ محمد عامر، حسن علی اور محمد نواز نے اپنے 10، 10 اوورز میں بالترتیت 72، 74 اور 62 رنز دیے۔ وکٹیں البتہ صرف حسن علی اور محمد نواز کو ملیں۔

ریکارڈ 445 رنز کے ہدف کا تعاقب کرنا پاکستان کے بس کی بات نہیں تھی۔ پھر بھی شرجیل خان نے ابتدا میں کچھ تیز رفتاری سے بلے بازی دکھا کر راہ متعین کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے صرف 26 گیندوں پر نصف سنچری مکمل کی لیکن انگلستان کے بچھائے ہوئے فیلڈنگ جال میں باآسانی پھنسے۔ 30 گیندوں پر 58 رنز کی اننگز میں ایک چھکا اور 12 چوکے شامل تھے۔ اس کے بعد مایوس کن ترین بلے بازی دکھائی گئی۔ 200 رنز تک پہنچنے سے پہلے پہلے 9 وکٹیں گرگئیں۔ جن میں سرفراز احمد 38 اور محمد نواز 34 رنز کے ساتھ آگے تھے۔ سمیع اسلم نے صرف 8، بابر اعظم نے 9، شعیب ملک نے ایک اور حسن علی نے محض 4 رنز بنائے۔

آخری وکٹ پر محمد عامر اور یاسر شاہ نے قابل ذکر مزاحمت کی۔ دونوں نے نہ صرف یہ کہ 76 رنز جوڑے بلکہ بہت تیزی سے رنز بھی اسکور کیے۔ محمد عامر نے صرف 22 گیندوں پر اپنی نصف سنچری مکمل کی جو شاہد آفریدی کے سوا کسی بھی پاکستانی بلے باز کی تیز ترین ففٹی ہے۔ وہ 28 گیندوں پر 58 رنز بنانے کے بعد آؤٹ ہونے والے آخری بلے باز تھے۔ ان کی اننگز میں 4 چھکے اور 5 چوکے شامل تھے۔ یاسر شاہ 26 رنز پر ناٹ آؤٹ رہے اور دونوں نے یہ بات ثابت کی کہ اس وکٹ پر بہترین بلے بازی ہو سکتی تھی، اگر کھلے ذہن کے ساتھ اور ہدف پر نظر رکھ کر بیٹنگ کی جاتی تو۔

پاکستان کی اننگز 275 رنز پر مکمل ہوئی اور 169 رنز کی مایوس کن شکست کے ساتھ ہی سیریز کا فیصلہ بھی ہوگیا اور آخری دونوں ایک روزہ مقابلوں کی اب کوئی اہمیت نہیں بچی۔ گو کہ پاکستان کو اپنی عزت بچانے کے لیے یہاں کامیابی حاصل کرنا ہوگی ورنہ سیریز کا نتیجہ کئی کھلاڑیوں کے کیریئر کو منطقی انجام تک پہنچا دے گا۔ خاص طور پر مکی آرتھر جیسے سخت گیر کوچ کے ہوتے ہوئے تو ایسے فیصلوں کی توقع بھی کرنی چاہیے۔

Azhar-Ali