پاکستان کو شکست در شکست، ایک اور بازی ہاتھ سے نکل گئی
شکستوں کے گرداب میں پھنسے پاکستان کو بچاؤ کا کوئی راستہ سجھائی نہیں دے رہا۔ ہر مقابلے میں نئی ہزیمت ان کی منتظر ہے۔ ابتدائی تینوں ایک روزہ مقابلوں کے بعد سیریز تو ویسے ہی ہاتھ سے نکل چکی تھی لیکن عبرت ناک انجام سے بچنے کی جو ہلکی سی امید بھی قائم تھی وہ چوتھے مقابلے کے ساتھ ہی دفن ہوگئی کہ جہاں پاکستان کو ایک مرتبہ پھر 4 وکٹوں سے شکست ہوئی ہے۔
248 رنز کے تعاقب میں انگلستان نے آل راؤنڈر بین اسٹوکس اور جانی بیئرسٹو کی عمدہ نصف سنچریوں کی بدولت فتح حاصل کی اور یوں پاکستان کے کپتان اظہر علی کی 80 اور عماد وسیم کی بروقت 57 رنز کی اننگز پر پانی پھیر دیا۔ اب انگلستان کو سیریز میں چار-صفر کی برتری حاصل ہوگئی ہے اور بلاشبہ وہ 'کلین سویپ' کے لیے مضبوط ترین امیدوار بن گیا ہے۔
ہیڈنگلے، لیڈز میں ہونے والے مقابلے میں پاکستان کی بیٹنگ لائن معین علی اور عادل رشید کے سامنے بے بس دکھائی دی۔ پاکستان کی گرنے والی 8 میں سے پانچ وکٹیں ان دونوں گیندبازوں کے بعد ہاتھ لگیں۔ اس کے بعد دراز قد محمد عرفان نے میزبان کو کافی مشکلات سے دوچار کیا اور ابتدائی 15 اوورز میں ہی انگلستان کی چار وکٹیں گرگئیں تو پاکستان کے کھلاڑیوں اور تماشائیوں میں یکدم جوش بھر گیا۔ لیکن امید کی اس موہوم سی کرن کا بین اسٹوکس اور جانی بیئرسٹو کی کارکردگی نے خاتمہ کردیا۔
تیسرے میچ میں ذلت آمیز شکست کے بعد پاکستان نے اپنے دستے میں محمد عامر اور شعیب ملک سمیت چار کھلاڑیوں کو باہر بٹھایا۔ اظہر علی نے ٹاس جیت کر پہلے بلے بازی کا فیصلہ کیا اور چوتھے اوور میں کرس جارڈن نے شرجیل خان کی اننگز کا خاتمہ کردیا۔ پچھلے مقابلے میں دھواں دار اننگز کھیلنے والے شرجیل اس بار کچھ خاص نہ کر سکے اور بین اسٹوکس کو کیچ تھما گئے۔ یہاں کپتان خود میدان میں اترے اور سمیع اسلم کے ساتھ مل کر محتاط انداز میں اننگز آگے بڑھائی۔ سمیع 24 رنز بنانے کے بعد لیام پلنکٹ کی گیند پر اسٹوکس کے ہاتھوں ہی کیچ ہوئے۔
یہاں بابر اعظم آئے اور کپتان کے ساتھ مل کر 23 ویں اوور تک وکٹ تو بچانے میں کامیاب رہے لیکن رنز میں اضافے کی رفتار انتہائی سست ہوگئی۔ یہاں تک کہ 21 گیندوں پر صرف 12 رنز بنا کر بابر معین علی کا پہلا شکار بن گئے۔ اگلے ہی اوور میں کپتان نے نصف سنچری مکمل کی اور اس کے بعد خاصا جارحانہ انداز اپنا لیا۔ ایک طرف اظہر علی میزبان کے لیے جو مشکلات پیدا کر رہے تھے، دوسرے کنارے سے انگلستان کی اسپن جوڑی وکٹیں گرا کر اس کی کسر نکالتی جا رہی تھی۔ سرفراز احمد، محمد نواز اور محمد نواز غیر متاثر کن کارکردگی کے بعد آؤٹ ہوئے یہاں تک کہ اظہر علی بھی 80 رنز پر ہمت ہار گئے۔ 38 اوورز میں پاکستان کا مجموعہ 169 رنز تھا اور ایسا لگتا تھا کہ 200 رنز بھی بمشکل بن پائیں گے۔
یہاں پر عماد وسیم کی غیر متوقع جارحانہ بلے بازی نے مجموعے کو باعزت مقام پر پہنچایا۔ انہوں نے 41 گیندوں پر ناقابل شکست 57 رنز بنائے۔ پاکستان 50 اوورز میں آٹھ وکٹوں پر 247 رنز تک پہنچا، جو ویسے تو کم تھے لیکن ابتدائی حالات کو دیکھتے ہوئے یہ پھر بھی اچھا مجموعہ تھا اور یہ مزید بہتر لگ رہا تھا جب انگلستان کو بہتر آغاز نہیں ملا۔
انگلستان کی ابتدائی دونوں وکٹیں محمد عرفان کے ہاتھ لگیں جنہوں نے جیسن روئے اور ایلکس ہیلز دونوں کو آؤٹ کیا۔ مایوس پاکستانی تماشائیوں کے چہرے تمتمانے لگے کیونکہ پاکستان نے دو مزید اہم وکٹیں گرائیں پہلے جو روٹ حسن علی کے ہاتھوں آؤٹ ہوئے اور پھر عمر گل نے ایون مورگن کو ٹھکانے لگا دیا۔ ابتدائی 15 اوورز میں ہی 72رنز پر چار وکٹیں حاصل کرکے پاکستان میچ پر گرفت حاصل کرچکا تھا۔ بس اسے انگلستان کے نچلے مڈل آرڈر کی رکاوٹ پار کرنا تھی اور یہی کام پاکستان سے نہ ہو سکا۔ اسٹوکس اور بیئرسٹو نے پاکستان کی اس خواہش کا جنازہ نکال لیا۔ دونوں کی طرف سے محتاط اور جارحانہ بلے بازی کا حسین امتزاج دیکھنے کو ملا۔
جس وکٹ پر انگلستان کے اسپنرز نے بہترین گیندبازی کی، وہاں عماد اور محمد نواز کچھ خاص تاثر قائم نہ کر سکے۔ دونوں کے 20 اوورز میں 104 رنز پڑے اور صرف ایک وکٹ ان کے ہاتھ لگی۔ بین اسٹوکس 70 گیندوں پر 69 رنز بنا کر عماد وسیم کے ہاتھوں آؤٹ ہوئے۔ بیئرسٹو 61 رنز بنانے کے بعد اظہر علی کے براہ راست تھرو پر رن آؤٹ ہوئے تو انگلستان ہدف سے صرف 23 رنز دور تھا۔
یہاں پر بھی پاکستان کے پاس مقابلے میں واپسی کا موقع تھا لیکن معین علی کے 48 گیندوں پر 45 رنز نے انگلستان کی کشتی پار لگا دی۔ 48 ویں اور میں ایک شاندار چھکے نے میچ کا خاتمہ کردیا۔ سیریز میں پہلا ایک روزہ کھیلنے والے بیئرسٹو کو میچ کے بہترین کھلاڑی کا اعزاز ملا۔
یہ اظہر علی کی زیر قیادت پاکستان کی انگلستان کے خلاف مسلسل ساتویں شکست تھی جبکہ دونوں مرتبہ پاکستان نے ٹیسٹ سیریز جیتی تھی۔ یہ دونوں طرز کی کرکٹ میں پاکستان کی کارکردگی میں موجود فرق کو سمجھنے کے لیے کافی ہے۔ اب آخری ایک روزہ 4 ستمبر کو کارڈف میں کھیلا جائے گا جہاں پاکستان کی آخری کوشش کلین سویپ کی ہزیمت سے بچنے کی ہوگی۔ موجودہ کارکردگی دیکھیں تو اس کے آثار نہیں دکھائی دیتے۔