جدید تقاضوں کے مطابق ٹیم بنانے کے لیے دوٹوک فیصلے کرنے ہوں گے: مکی آرتھر

0 1,014

پاکستان کے نئے نویلے ہیڈ کوچ مکی آرتھر ایک روزہ دستے کی کارکردگی سے سخت مایوس ہیں۔ ابتدائی تینوں مقابلے میں عبرت ناک شکست کے بعد چوتھے معرکے کے لیے دستے میں چار تبدیلیاں بھی کسی کام نہیں آئیں۔ دراز قد محمد عرفان نے ابتدائی اسپیل میں دو انگلش بلے بازوں کو ٹھکانے لگا کر ہلچل ضرور مچائی لیکن جب مقابلے پر گرفت کا موقع آیا تو ان کی فٹنس آڑے آ گئے۔ عرفان کو درپیش مسائل پر کوچ پریشان دکھائی دیتے کیونکہ انگلستان کے دورے سے پہلے ہی فٹنس میں بہتری کے لیے معمول سے بڑھ کر اقدامات اٹھائے گئے تھے۔ نیشنل کرکٹ اکیڈمی میں تقریباً دو ہفتوں پر مشتمل تربیتی کیمپ لگایا گیا تھا جہاں محدود اوورز کے دو مقابلے بھی منعقد کیے گئے، تب کہیں جاکر ٹیم کا انتخاب عمل میں آیا۔

زیادہ دکھ اس بات کا ہے جس وقت عرفان شاندار گیندبازی کا مظاہرہ کر رہے تھے اور دو اہم ترین کھلاڑیوں جیسن روئے اور ایلکس ہیلز کو آؤٹ کر چکے تھے، حریف کپتان ایون مورگن کو شدید دباؤ میں لا چکے تھے کہ جنہیں گیند کھیلنے مین سخت مشکلات کا سامنا تھا، پھر انہوں نے حسن علی کی گید پر ایک بہترین کیچ بھی پکڑا لیکن پھر اچانک میدان چھوڑ کر باہر چلے گئے حالانکہ اس وقت دباؤ برقرار رکھنے کے لیے پاکستان کو عرفان کی سخت ضرورت تھی۔ جب 42 ویں اوور میں وہ تھوڑی دیر کے لیے دوبارہ واپس آئے تو نہ صرف مقابلہ ہاتھ سے نکل چکا تھا بلکہ وہ صرف ایک گیند پھینک کر پھر پویلین لوٹ گئے۔

کوچ مکی آرتھر نے کہا ہے کہ وہ اپنی سوچ اور ارادوں کے مطابق ٹیم کو ڈھالنے کے لیے بہت سے کھلاڑیوں کو مواقع دے رہے ہیں اور سیریز کے آخر تک معلوم ہو جائے گا کہ کون آگے جائے گا اور کون بوجھ بن چکا ہے، جسے الگ کرنا ہوگا۔ "جہاں تک عرفان کی بات ہے وہ ایک زبردست کھلاڑی ہے، میں چاہوں گا کہ وہ ہمارے ساتھ آگے بھی چلے۔ ان تمام معاملات میں مجھے چیف سلیکٹر انضمام الحق کا بھرپور تعاون حاصل ہے اور ہم ہر مسئلے پر تفصیلی بات چیت کرتے ہیں۔

ماضی میں جنوبی افریقہ اور آسٹریلیا کو دنیا کی نمبر ایک ٹیم بنانے والے آرتھر نے اعتراف کیا کہ ایک روزہ سیریز میں چار-صفر سے شکست آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔ اب سنجیدگی سے وہ سب کرنا ہوگا جس کی اشد ضرورت ہے۔ ہر شعبے میں غیر معمولی کارکردگی کی حامل ٹیم بنانا ہوگی جس میں اوپر سے نیچے تک سب جارحانہ بلے بازی کے ساتھ لمبے شاٹ کھیلنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہوں جبکہ پاکستان میں اس وقت ایسا ایک بھی کھلاڑی نہیں۔ اس لیے اگلے ٹورنامنٹ سے پہلے ہمیں واضح اور دوٹوک فیصلہ کرنا ہوگا کہ جدید تقاضوں میں پورا اترنے کے لیے کیسی ٹیم کا انتخاب کیا جائے۔

گزشتہ کئی سالوں سے مکی آرتھر کا فلسفہ ہے کہ فیلڈنگ کا معیار بلے بازی اور باؤلنگ سے بہتر ہونا زیادہ ہے اور پاکستان اسی شعبے میں بہت پیچھے ہے بلکہ کئی شکستوں کا بنیادی سبب فیلڈنگ کا ناقص معیار ہی ہے۔ مکی آرتھر کے مطابق عمر اکمل اس شعبے میں بہترین ہیں، لیکن وہ ایک روزہ کے علاوہ ٹی ٹوئنٹی میں بھی ٹیم سے باہر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ "ان کے رویے کے متعلق میں کچھ نہیں کہہ سکتا کیونکہ میں نے کبھی عمر کے ساتھ کام نہیں کیا لیکن میں یہ جانتا ہوں کہ وہ میچ کو کامیابی سے اختتام تک پہنچانے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور مقامی ٹی ٹوئنٹی مقابلوں میں بھی ان کی کارکردگی غیر معمولی ہے۔ لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ میدان سے باہر ان کے رویے کو اہمیت نہیں دیا جائے۔ اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔"