یاسر بمقابلہ آشون، کون بہتر؟
بھارت کے اسپنر روی چندر آشون نے حال ہی میں تیز ترین 200 وکٹیں لینے کا اعزاز اپنے نام کیا ہے۔ روی 39 ٹیسٹ مقابلوں میں 220 وکٹیں حاصل کر چکے ہیں۔ دوسری طرف پاکستان کے اسپنر یاسر شاہ ہیں، جنہوں نے سب سے کم مقابلوں میں 100 وکٹیں حاصل کرنے والوں میں اپنا نام لکھوایا ہے بلکہ آشون کو پیچھے چھوڑ کر اس مقام تک سب سے پہلے پہنچنے والے ایشیائی باؤلر بن گئے ہیں۔ ویسٹ انڈیز کے خلاف دبئی ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں پانچ وکٹوں کی بدولت وہ 17 مقابلوں میں ہی وکٹوں کی سنچری کر چکے ہیں۔ تو کیا ان دونوں گیند بازوں میں کوئی مقابلہ ہے؟
آشون نے اپنی پہلی 100 وکٹیں 18 مقابلوں میں حاصل کی تھیں جبکہ اگلی 100 وکٹیں حاصل کرنے کے لیے انہیں 20 میچز کھیلنا پڑے۔ آشون کی وکٹیں لینے کی شرح 24.29 رہی جبکہ اکانمی ریٹ 2.94 ہے۔ اس کے مقابلے میں یاسر کا اوسط 27.32 اور اکانمی 3.05 ہے یعن اس اعتبار سے ہمیں آشون آگے نظر آتے ہیں لیکن آشون کو 100 وکٹوں کا سنگِ میل عبور کرنے میں یاسر سے زیادہ وقت لگا۔
پھر مضبوط ٹیموں کے خلاف دونوں کی کارکردگی دیکھیں تو آسٹریلیا کے خلاف آشون نے دس میچوں میں 34.64 کی اوسط سے 50 وکٹیں حاصل کی ہیں جبکہ آسٹریلیا کے خلاف یاسر کی اوسط 17.25 رہی ہے۔ یاسر نے آسٹریلیا کے خلاف دو میچز کھیلے اور 12 شکار کیے۔ اسی طرح، انگلستان کے خلاف آشون نے چھ میچوں میں 49.29 کی اوسط سے 17 وکٹیں لے رکھی ہیں، جبکہ یاسر نے اتنے ہی میچوں میں 32.26 کی اوسط سے 34 وکٹیں لی ہیں۔ یعنی آسٹریلیا اور انگلستان جیسی ٹیموں کے خلاف یاسر کی کارکردگی آشون سے کہیں زیادہ بہتر رہی ہے۔
آشون کی بہترین بالنگ کا جائزہ لیا جائے تو انہوں نے حال ہی میں نیوزی لینڈ کے خلاف ایک اننگز میں 59 رنز دے کر سات وکٹیں لی ہیں۔ یاسر کی بہترین بالنگ گزشتہ سال سری لنکا کے خلاف تھی جہاں انہوں نے 76 رنز دے کر سات وکٹیں حاصل کی تھیں۔ لیکن ان دونوں بہترین بالنگ اننگز میں ایک بنیادی فرق تھا۔ اور وہ تھا، ہوم گراؤنڈ کی نعمت۔ آشون اپنی سرزمین پر موجود تھے اور یاسر ملک سے باہر کھیل رہے تھے۔اور یہی وہ فرق ہے جو یاسر کو آشون سے ممتاز کرتا ہے۔ آشون نے اپنے ٹیسٹ کیریئر کا آغاز کرنے کے بعد سے اب تک 39 میچز کھیلے ہیں جن میں سے 22 مقابلے ہوم گراؤنڈ پر تھے اور 17 ملک سے باہر۔ لیکن پاکستانی گیند باز یاسر جب 2014ء میں قومی ٹیم کا حصہ بنے تو پاکستان کے کرکٹ میدان ویران پڑے تھے اور کوئی غیر ملکی ٹیم یہاں کھیلنے آنے کے لیے تیار نہیں تھی۔ یہ صورتحال اب تک یونہی برقرار ہے۔ یاسر نے تمام تر مقابلے ملک سے باہر کھیلے ہیں جہاں نہ انہیں موافق حالات دستیاب تھے اور نہ اپنی مرضی کی پچ۔ یاسر کے 17 میں سے 9 مقابلے مخالف ٹیموں کی سرزمین پر تھے، جبکہ باقی آٹھ نیوٹرل مقامات پر۔
ہوم گراؤنڈ اور ملک سے باہر کھیلنے کا فرق اگر آپ ایک نظر میں ملاحظہ کرنا چاہیں تو یہی دیکھ لیں کہ اپنی سرزمین پر 20.37 کے اوسط سے گیند کروانے والے آشون کا بیرونِ ملک اوسط 33.23 ہے۔ آشون نے اپنی سرزمین پر ایک میچ میں پانچ وکٹیں لینے کا کارنامہ 16 بار انجام دیا ہے جبکہ بیرونِ ملک وہ ایسا صرف پانچ مرتبہ کر پائے ہیں۔
حال ہی میں سابق بھارتی اسپنر، ہربھجن سنگھ کی جانب سے بھی یہ دعویٰ سامنے آیا تھا کہ آشون کی کامیابیوں کے پیچھے پچ کیوریٹرز کی خصوصی معاونت کا بڑا عمل دخل ہے، جن سے وہ اپنی مرضی کی وکٹیں تیار کرواتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کہیں کہ ہربھجن پیشہ ورانہ حسد میں ایسا کہہ رہے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اعداد و شمار بھی ان کی دلیل کو سہارا دے رہے ہیں۔