یاسر شاہ کو بھی بھارت یاد آنے لگا
یہ بات کم از کم ہماری سمجھ سے تو بالاتر ہے کہ جب بھی کوئی کھلاڑی کوئی کارنامہ سر انجام دے یا بورڈ حکام کو کوئی نیا منصوبہ سوجھے تو انہیں فوراً بھارت کیوں یاد آنے لگتا ہے؟ چاہے جواب میں انہیں دھتکار ہی ملے تب بھی۔ بھارت سے کھیلنے کی تازہ ترین بے تابی اسپنر یاسر شاہ نے دکھائی ہے جو ویسٹ انڈیز کے خلاف دبئی ٹیسٹ میں 100 وکٹوں کے سنگ میل تک پہنچے بلکہ ایسا کرنے والے تیز ترین ایشیائی باؤلر بھی بنے۔
یہ اعزاز حاصل کرنے کے بعد یاسر شاہ نے اس خواہش کا اظہار شاید اس لیے کیا کہ وہ اپنے حریف روی چندر آشون کے مقابلے میں کھیل سکیں۔ بھارتی آف اسپن گیندباز آشون نے ٹوئٹر پر یاسر شاہ کو مبارک باد دیتے ہوئے ان کی صلاحیتوں کا اعتراف کیا تھا جنہوں نے 18 مقابلوں میں 100 وکٹیں لینے کا انہی کا ریکارڈ توڑا۔
یاسر شاہ نے آشون کے خیر سگالی پیغام کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ یہ میرے لیے حوصلہ افزا ہے۔ ویسے تو پاکستان اور بھارت کے کھلاڑی ایک دوسرے کے ساتھ کھیلنے کی تمنا رکھتے ہی ہیں لیکن میری خواہش اس لیے زیادہ ہے کیونکہ میں نے بھارت کے خلاف ایک ٹیسٹ بھی نہیں کھیلا۔
روایتی حریفوں کے درمیان آخری بار کوئی ٹیسٹ 2007ء میں کھیلا گیا تھا جس کے بعد سے بھارت پاکستان سے کھیلنے سے انکاری ہے اور اب تو مستقبل قریب میں باہمی کرکٹ کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔
ویسے یاسر شاہ کو وکٹوں کی سنچری انگلینڈ میں مکمل کرنی چاہیے تھی کیونکہ لارڈز میں کھیلے گئے پہلے ٹیسٹ میں 10 وکٹیں حاصل کرنے کے بعد انہیں باقی تین مقابلوں میں صرف 14 وکٹوں کی ضرورت تھی لیکن وہ ایسا نہ کر سکے۔ یوں 17 مقابلوں میں اس سنگ میل تک پہنچنے کی وجہ سے عالمی ریکارڈ نہ توڑ سکے۔
پاکستان کے لیے سب سے کم مقابلوں میں 100 وکٹیں لینے کا اعزاز پہلے سعید اجمل کے پاس تھا کہ جنہوں نے 19 ٹیسٹ مقابلوں میں یہ سنگ میل عبور کیا لیکن اب یہ اعزاز یاسر شاہ کے پاس ہے۔ ویسے اب ان کی توجہ اپنے کھیل پر ہونی چاہیے، بھارت پر نہیں۔ اسے پاکستان کرکٹ سے وابستہ افراد جتنی جلدی بھول جائیں گے، اتنا ہی بہتر ہوگا۔