’’پُش اَپ‘‘ لگاؤ...’’شٹ اَپ‘‘ کراؤ!

2 1,077

بدعنوانی جونک کی طرح ملک کا خون چوس رہی ہے، دہشت گردی نے ہر ایک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، ’’ہمسائے‘‘کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کی ہمت نہیں ہورہی، قرضوں کے پہاڑ بلند سے بلند تر ہوتے جارہے ہیں لیکن ملک بھرپور ترقی کررہا ہے، صوبائی دارالحکومت میں ساٹھ بے گناہ مارے جاتے ہیں، تو ایسی نزاعی صورتحال میں شوشا اٹھتا ہے کہ قومی ٹیم جیت کا جشن ’’پُش اَپس‘‘ لگا کر کیوں مناتی ہے؟ شاید قومی ٹیم کے سپہ سالار کی طرف سے پش اَپس لگا کر سنچری کا جشن منانے کا مطلب ایک اور ’’سپہ سالار‘‘ کی حمایت ہی نکلتا ہو جو ’’جمہوریت‘‘ کے لیے’’خطرہ‘‘ ہو۔ بہرحال، پش اَپس کے خلاف شور مچانا درحقیقت ’’اصل‘‘ کمزوریوں کی طرف سے دھیان ہٹانا ہے۔

یہ عجیب بات نہیں کہ کوئی کپتان جیت کا جشن منانے کے لیے اپنی شرٹ اتار کر لارڈز کی بالکونی میں لہرائے تو وہ جائز ہے مگر پاکستانی ٹیم اسی میدان میں تاریخی فتح حاصل کرنے کے بعد ڈنڈ پیلے تو یہ بات ہضم نہ ہو۔ شاید پاکستانی ٹیم کے جشن کا یہ انداز منفی سوچ سے بھرے کئی دماغوں پر ہتھوڑے برسا رہا ہے۔ انہیں ٹیم کا یہ پروقار انداز بھلا کیسے بھا سکتا ہے؟

اس لیے اگر مصباح الحق اور دیگر بیٹسمین سنچری اسکور کرنے کے بعد ’’شیر‘‘ کی طرح دھاڑیں یا ٹیم کی فتح پر ایک ٹانگ پر کھڑے ہوکر ایک ہاتھ سے مکا بناتے ہوئے آہستہ آہستہ منہ پر مارتے ہوئے آوازیں نکالیں تو شاید اسمبلی میں ایسے جشن کی حمایت میں قرار منظور ہوجائے مگر باوقار طریقے سے ’’سیلوٹ‘‘ کرنا؟ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

کرکٹ میں جشن منانے کے مختلف انداز رہے ہیں اور ان میں کچھ واہیات کے زمرے میں بھی آتے ہیں مگر ایسی تنقید کبھی بھی نہیں کی گئی جو پاکستانی کھلاڑیوں کے پش اَپس پر ملکی سیاستدانوں نے کی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ پاکستانی ٹیم کے اس انداز کو غیر ملکیوں نے بھی سراہا اور انگلینڈ میں ڈیوڈ لائیڈ سمیت کئی کمنٹیٹرز نے بھی اس کے بعد پش اَپس لگا کر اس انداز کو اپنی سند دی ۔ یہ انداز اب امر ہوچکا ہے لیکن قومی ٹیم کے کپتان مصباح الحق کی جانب سے یہ بیان کہ ’’پاک فوج کے تربیت کاروں سے وعدہ کیا تھاکہ انگلینڈ میں سنچری اسکور کی تو دس پش اَپس لگاؤں گا‘‘ قومی سیاست دانوں کے سینے پر مونگ دلنے کے مترادف ہوگیا۔

پھر مصباح کے انفرادی پش اَپس کے بعد ٹیم کے اجتماعی پش اَپس کو سینئر کھلاڑی یونس خان نے ’’لیڈ‘‘ کیا تھا اور جنہوں نے 2008ء میں سخت گرمی میں سنچری اسکور کرکے دو تین پش اَپس لگائے تھے جو دراصل ٹیم انتظامیہ کا حصہ محتشم رشید کو خراج تحسین تھا، جنہوں نے یونس خان کی فٹنس کو بہتر بنایا تھا۔ اس لیے یونس خان کے پش اَپس پر کسی کو اعتراض نہیں ہوا اور 2008ء میں اگر وہ اپنے پش اَپس سے پاک فوج کو خراج تحسین بھی پیش کرتے تو شاید وفاق میں کسی کو اعتراض نہ ہوتا۔

پی سی بی کے ’’روح رواں‘‘نجم سیٹھی نے یہ کہہ کر معاملہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی ہے کہ قائمہ کمیٹی نے کھلاڑیوں کے پش اَپس لگانے پر پابندی نہیں لگائی مگر خود نجم سیٹھی نے خوشی میں دس تو کیا بیس پش اَپس لگائے ہوں گے کیونکہ قائمہ کمیٹی نے نہ یہ سوال اٹھایا کہ پاکستان سپر لیگ کو الگ کمپنی کیوں بنایا جارہا ہے، پی سی بی کو دو مختلف لوگ مختلف انداز سے کیوں چلا رہے ہیں، شہریار خان کے بیرون ملک علاج پر کتنا خرچہ آیا، ڈومیسٹک کرکٹ کی بہتری کے لیے بورڈ کیا اقدامات کررہا ہے، پی ایس ایل ڈرافٹ بیرون ملک کرنے سے کتنا اضافی خرچ آیا اور اس کے علاوہ بھی بہت سے مسائل ہیں مگر سوال اُٹھایا تو یہ کہ پش اَپس لگا کر مصباح کس کو پیغام دینا چاہ رہے تھے۔ یہ سوال اس لیے نہیں پوچھے گئے کیونکہ پی سی بی کے سربراہ کا تقرر اقتدار میں بیٹھے ان لوگوں کے ’’سربراہ‘‘ کی مرضی کے بغیر نہیں ہوتاجو ’’پُش اَپس‘‘ پر اُچھل رہے ہیں۔

اگر آپ کو بھی لگتا ہے کہ قائمہ کمیٹی کی جانب سے پُش اَپس پر اعتراض بلا جواز ہے تو پھر یہ سطریں پڑھنے کے بعد ایک ’’پُش اَپ‘‘ لگا کر ان ’’مسخروں‘‘ کو ’’شٹ اَپ‘‘ کروادیں!!

Pakistan-celebration-at-lords