انگلستان کا دورہ، بنگلہ دیش کے عروج کا نقطہ آغاز؟

0 1,200

بنگلہ دیش کو ایک طویل عرصے کے بعد اپنے گھر میں ون ڈے سیریز میں شکست ہوئی، اور اس دھچکے کے اثرات چٹاگانگ میں ہونے والے پہلے ٹیسٹ میں بھی دکھائی دیے کہ جہاں وہ صرف 22 رنز سے ہارا۔ لیکن جس طرح وہ ڈھاکا میں دوسرا مقابلہ جیتا ہے اس نے ثابت کردیا ہے کہ اب فارمیٹ کوئی بھی ہو بنگلہ دیش کو اس کے "گھر" میں ہرانا اب دنیا کی بڑی بڑی ٹیموں کے لیے ایک چیلنج بن چکا ہے۔ انگلستان ایک روزہ سیریز بھی بمشکل جیتا اور ٹیسٹ میں بھی 'بابائے کرکٹ' کے دانتوں پر پسینہ آ گیا۔

کیا یہ بنگلہ دیش کے عروج کا نقطہ آغاز ہے؟ ایک حد تک ایسا کہنا بالکل درست ہے۔ اس سفر کا آغاز گزشتہ سال عالمی کپ میں کوارٹر فائنل تک رسائی کے بعد پاکستان کو ہوم سیریز میں تین-صفر سے ہرانے سے ہوا لیکن کارکردگی میں فرق دیکھیں۔ ایک طرف ون ڈے میں کلین سویپ کیا تو اس کے فوراً بعد ٹیسٹ میں خود وائٹ واش سے دوچار ہوا۔ اس کے بعد دیگر ٹیسٹ سیریز میں بھی نتائج مختلف نہیں تھے۔ لیکن انگلستان کے خلاف بنگلہ دیش فتح سے صرف 22 رنز دوری تک پہنچ گیا جو رنز کے حساب سے اس کی سب سے چھوٹی شکست ہے۔ یہ جو معمولی سی کسر رہ گئی بنگلہ دیش نے ڈھاکا میں اسے بھی پورا کردیا۔

چٹاگانگ اور ڈھاکا میں جو فرق سب سے نمایاں دکھائی دیا، وہ نوجوان مہدی حسن کا تھا۔ گو کہ انہوں نے پہلے ٹیسٹ میں بھی بہت عمدہ کارکردگی دکھائی تھی لیکن کیونکہ معاملہ آخر میں بلے بازوں کے ہاتھ میں آیا اور وہ ہدف کی جانب پیشقدمی میں بری طرح ناکام ہوئے، اس لیے شکست بنگلہ دیش کے نصیب میں لکھی گئی۔ ایک ایسی شکست جس کے زخم بہت عرصے تک تازہ رہیں گے۔ ڈھاکا میں کامیابی نے اس کی تکلیف کو کم ضرور کیا ہوگا لیکن سیریز میں کامیابی کے اتنا قریب پہنچنے کے بعد نہ جیت پانے کی کسک بہت عرصے تک زندہ رہے گی۔

بہرحال، گھر کے شیروں کا تاثر قائم ہونے کے بعد اب 'بنگال کے شیروں' کو اسے مستحکم بھی کرنا ہے اور اگلا قدم بیرون ملک کامیابیاں ہونا چاہیے۔

دوسری جانب انگلستان کی ایشیائی کنڈیشنز میں ناکامی کھل کر سامنے آ گئی ہے۔ پاکستان کے خلاف متحدہ عرب امارات میں کھیلی گئی گزشتہ دونوں سیریز میں بری طرح شکست اور اب 2016ء میں بھارت کے اہم دورے سے قبل بنگلہ دیش کو ہرانے میں بھی ناکامی کے اثرات بہت گہرے ہوں گے۔ جو بیٹنگ لائن شکیب الحسن اور مہدی حسن کی باؤلنگ کے سامنے ڈھیر ہوگئی، وہ روی چندر آشون اور رویندر جدیجا کا مقابلہ کیسے کرے گی؟ یہ سوچ سوچ کر انگلش تماشائیوں کو پریشانی ہو رہی ہوگی۔

Bangladesh-team