پاکستان اور شارجہ، مایوس کن یادوں میں نیا اضافہ

0 1,114

شارجہ کے نام سنتے ہی پاکستان کرکٹ کے شائقین کی باچھیں کھل جاتی ہیں۔ وہ یکدم 30 سال پہلے 1986ء میں پہنچ جاتے ہیں جب جاوید میانداد نے آسٹریلیشیا کپ کے فائنل میں آخری گیند پر بھارت کے چیتن شرما کا "وہ تاریخی چھکا" رسید کیا تھا۔ گویا شارجہ امر ہوگیا، لیکن ۔۔۔۔ یہی میدان ٹیسٹ میں پاکستان کے لیے اتنا 'مبارک' ثابت نہیں ہوا۔

یہاں پاکستان نے پہلی بار کوئی ٹیسٹ مقابلہ جنوری 2002ء میں کھیلا تھا اور مقابل ویسٹ انڈیز ہی تھا۔ نائن الیون اور اس کے بعد افغانستان میں بگڑتی ہوئی صورت حال کی وجہ سے یہ سیریز پاکستان سے عرب امارات منتقل کی گئی تھی اور شارجہ میں دو مقابلے کھیلے گئے۔ نتیجہ توقعات کے مطابق ہی رہا، مضبوط پاکستان نے شارجہ میں کھیلا گیا تاریخ کا پہلا ٹیسٹ 170 رنز سے جیتا اور کچھ دن بعد اگلے ٹیسٹ میں 244 رنز سے واضح کامیابی حاصل کی اور یوں اس میدان پر شاندار آغاز لیا لیکن یہ 'ہنی مون پیریڈ' تھا۔ شارجہ نے پاکستان کو اسی سال اپنا اصل روپ دکھایا۔

آسٹریلیا کے خلاف اکتوبر 2002ء میں طے شدہ 'ہوم' سیریز کا انعقاد بھی پاکستان میں نہیں ہو سکا۔ پہلا ٹیسٹ کولمبو میں کھیلنے کے بعد باقی دو مقابلے شارجہ منتقل کیے گئے، جہاں 11 اکتوبر کو پاکستان اور آسٹریلیا پہلی بار مدمقابل آئے۔ ویسے تو اسے مقابلہ کہنا بھی مقابلے کی توہین ہوگی کیونکہ پاکستان کے بلے بازوں نے وہ کر دکھایا، جو شاید ہی کبھی کو کر پائے۔ نالائقی کی انتہا دیکھیں، پہلی اننگز میں اپنی تاریخ کا بدترین اسکور 59 رنز پر ڈھیر ہوئے اور اسی میچ کی دوسری اننگز میں صرف 53 رنز پر آؤٹ ہوکر اپنا "ریکارڈ" ہی توڑ دیا۔ آسٹریلیا نے واحد اننگز میں 310 رنز بنائے اور مقابلہ ایک اننگز اور 198 رنز سے جیتا۔

سیریز کے تیسرے، اور شارجہ میں ہونے والے دوسرے، ٹیسٹ میں پاکستان کا حال اتنا برا تو نہیں رہا لیکن نتیجہ ویسا ہی رہا، یعنی بھاری شکست، ایک اننگز اور 20 رنز سے۔ 444 رنز کے جواب میں 'وقار یونس الیون' دو باریوں میں 221 اور 203 رنز ہی بنا سکی اور یوں پاکستانیوں کی نظر میں شارجہ کا 'سحر' ہمیشہ کے لیے ختم ہوگیا۔

Faisal-Iqbal

جب مصباح الحق کی زیر قیادت پاکستان نے اپنے سفر کا 'صفر' سے آغاز کیا تب بھی شارجہ نے پاکستان کا خیرمقدم نہیں کیا۔ نومبر 2011ء میں پاکستان سری لنکا سے سیریز تو جیتا لیکن یہاں شارجہ میں اسے چت نہیں کر سکا۔ یہاں تک کہ 2014ء میں فتح کو زبردستی شکست کے جبڑوں سے چھینا۔ پاکستان سیریز میں ایک-صفر کے خسارے میں تھا اور آخری ٹیسٹ میں جب اسے صرف 59 اوورز میں 302 رنز کا ہدف ملا تو سب کی نظر میں جیتنا اور سیریز برابر کرنا ناممکن ہوگیا تھا۔ یہاں پاکستان نے ایسی کامیابی حاصل کی جس سے لگتا تھا کہ شاید 'شارجہ کے بھوت' کو بوتل میں بند کردیا گیا ہے۔ لیکن یہ کیا؟ اسی سال جب نیوزی لینڈ سے مقابلہ ہوا تو ایک اور شکست؟

اس بار پاکستان کو سیریز میں ایک-صفر کی برتری حاصل تھی اور اسے آخری ٹیسٹ محض ڈرا کرنا تھا۔ یہاں پاکستان پہلی اننگز میں 351 رنز بنانے میں کامیاب بھی ہوا لیکن نیوزی لینڈ کے جوابی وار سہہ نہ سکا۔ برینڈن میک کولم کی ڈبل سنچری اور کل 690 رنز نے پاکستان کو ایسا جکڑا کہ دوسری اننگز صرف 259 رنز پر تمام ہوگئی۔ یوں ایک اننگز اور 80 رنز کی شکست کے ساتھ ہی سیریز بھی ہاتھوں سے نکل گئی۔

گزشتہ سال انگلستان کو یہاں شکست دینے کے بعد اب جب ویسٹ انڈیز کے ساتھ شارجہ آیا تو سب کو پاکستان سے ایک اور کلین سویپ کی امید تھی لیکن ۔۔۔۔۔۔ خواب بکھر گیا۔ ویسٹ انڈیز نے پاکستان کی ان تمام کمزوریوں کا بالآخر فائدہ اٹھا لیا جو اب تک سیریز میں نظر آئی تھیں۔ پہلی اننگز میں 281 رنز کے جواب میں برتری حاصل کرکے اور دوسری اننگز میں دباؤ میں موجود پاکستانی بلے بازوں کا بروقت شکار کرکے ویسٹ انڈیز نے ایک شاندار کامیابی حاصل کی اور نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کے مشکل دوروں سے پہلے پاکستان کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا۔

یوں مصباح الحق کی کپتانی میں پاکستان نے شارجہ میں 7 ٹیسٹ کھیلے، صرف 2 جیتے، 4 ہارے اور ایک ڈرا کیا۔ شاید ہی کسی میدان نے مصباح کو اتنا برے نتائج دیے ہوں۔ ویسے اب پاکستان کی اگلے ایک سال تک کوئی 'ہوم سیریز' طے شدہ نہیں ہے۔ اکتوبر 2017ء میں سری لنکا کی میزبانی تک حالات بدل بھی سکتے ہیں، یہ بھی ممکن ہے کہ سیریز پاکستان میں کھیلی جائے اور پاکستان کی شارجہ سے جان چھوٹ جائے۔ لیکن اگر ایسا نہیں ہوا تو کیا ہوگا؟ سوچ کر خوف آتا ہے۔

Younis-Khan