آسٹریلیا بمقابلہ جنوبی افریقہ، جاندار ٹیموں کے شاندار مقابلے

0 1,793

سچ پوچھیے تو ایشیائی سرزمین پر کھیلی جانے والی مسلسل ٹیسٹ سیریز سے اکتا سا گیا ہوں۔ وہی ایک طرح کی سست وکٹیں جہاں ابتدائی دو دن بلے بازوں کو مدد ملتی ہے تو بقیہ دنوں میں اسپنرز کا راج ہوتا ہے۔ اِن وکٹوں میں کھیلے جانے والے میچز کے نتیجے کا اندازہ تو ٹاس کے وقت ہی ہوجاتا ہے کہ جس ٹیم نے بھی چوتھی اننگز میں بلے بازی کرنی ہے، اُس کی جیت کے امکانات نسبتاً کم ہوجاتے ہیں۔

ایسے حالات میں جب آپ کو یہ خبر ملے کہ دنیا کی صف اول کی دو ٹیمیں یعنی آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ تیز وکٹوں کے مرکز یعنی پرتھ میں مدمقابل آ گئی ہیں تو اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ خوشی کا عالم کیا ہوگا۔

دونوں حریف اب تک 26 ٹیسٹ سیریز میں مدمقابل آئیں، جن میں کل 91 میچز کھیلے گئے۔ اگر ان 26 ٹیسٹ سیریز کے نتائج پر نظر ڈالی جائے تو آسٹریلیا کو واضح برتری حاصل ہے۔ 16 مرتبہ آسٹریلیا فاتح بن ابھرا تو جنوبی افریقہ کو صرف 4 سیریز میں کامیابی نصیب ہوئی جبکہ 5 سیریز برابر رہیں۔ اگر 91 مقابلوں کے نتیجے دیکھیں تو 51 میچز میں آسٹریلیا سرخرو رہا تو 21 میں جنوبی افریقہ کو فتح میسر آئی جبکہ 20 مقابلے بغیر کسی نتیجے تک پہنچے ختم ہوئے۔

ماضی میں کھیلے گئے مقابلوں کے نتائج اور اب شروع ہونے والی سیریز کے پہلے ٹیسٹ کے ابتدائی دن کا احوال دیکھیں تو ہر لحاظ سے آسٹریلیا کا پلڑا بہت زیادہ بھاری ہے۔ لیکن کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اِس بار نتیجہ تبدیل ہوسکتا ہے اور جنوبی افریقی ٹیم اپنے خراب ریکارڈ کو بہتر کرسکتی ہے۔ اِس کی وجہ شاید گزشتہ ماہ دونوں ٹیموں کی ایک روزہ سیریز کا نتیجہ ہے،جس میں جنوبی افریقہ نے آسٹریلیا کو شاندار کھیل پیش کرتے ہوئے پانچ-صفر سے کلین سوئپ کیا تھا۔

اگرچہ یہ کامیابی جنوبی افریقہ کا بہت بہت بڑا کارنامہ ہے لیکن پھر بھی ایک روزہ کرکٹ کے نتائج کو ٹیسٹ کرکٹ کے نتائج سے جوڑنا شاید کچھ ٹھیک عمل نہیں۔ پہلی وجہ یہ کہ دونوں طرز کی کرکٹ میں بہت زیادہ فرق ہے اور دوسرا اہم فرق یہ بھی کہ ایک روزہ سیریز جنوبی افریقہ کے میدانوں میں کھیلی گئی تھی جہاں جنوبی افریقہ کی ٹیم کو بحیثیت 'ہوم ٹیم' بہرحال کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور تھا، اور اِسی اعتبار سے آسٹریلیا میں کھیلی جانے والی سیریز میں بحثیت میزبان آسٹریلیا کو فائدہ ضرور ہوگا۔

اِس سیریز سے قبل جنوبی افریقہ کے لیے ایک اور بُری خبر یہ بھی ہے کہ جہاں ایک طرف اُسے اپنے سب سے اہم کھلاڑی ابراہم ڈی ولیئرز کا ساتھ میسر نہیں، تو وہیں انجری سے نجات حاصل کرنے والے مچل اسٹارک آسٹریلوی ٹیم کا حصہ بن چکے ہیں۔ اسٹارک جنوبی افریقہ کے لیے کتنے خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں اِس کا عملی مظاہرہ انہوں نے پرتھ میں جاری ٹیسٹ میچ کے پہلے ہی دن چار وکٹیں لے کر کردیا ہے۔

ماضی کے قصے اور اعداد و شمار تو اپنی جگہ، لیکن موجودہ سیریز میں جیت کے لیے دونوں ٹیموں کے کونسے کھلاڑی اہمیت کے حامل ہوں گے، آئیے ایک نظر ڈالتے ہیں:

جنوبی افریقہ

ہاشم آملا

اگر یہ کہا جائے کہ جنوبی افریقہ کی غیر یقینی فتح کے لیے ہاشم آملا کا کردار مرکزی ہے، تو بالکل بھی غلط نہیں ہوگا۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ ہاشم آملا کی کارکردگی کے بغیر جنوبی افریقہ ٹیسٹ سیریز میں فتح حاصل کرلے۔ گزشتہ کچھ ماہ سے ہاشم آملا کی کارکردگی بہت مثالی نہیں، یہی وجہ ہے کہ آسٹریلیا کے خلاف سیریز میں انہیں پانچ میں سے صرف تین میچز میں ہی موقع ملا، جبکہ یہاں پرتھ میں بھی پہلی اننگز میں وہ صفر پر آؤٹ ہوگئے ہیں۔ ایسی صورت میں جنوبی افریقہ کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ آملا فارم میں آجائیں۔

ڈیل اسٹین اور ویرنن فلینڈر

آسٹریلیا کی تیز ترین وکٹوں پر کسی بھی ٹیم کے لیے ضروری ہے کہ اُس کے تیز گیند باز فارم میں ہوں۔ آسٹریلوی بلے بازوں کو روکنے کے لیے یہ انتہائی ناگزیر ہے کہ یہ دونوں گیند باز ابتدائی اوورز میں جلد از جلد مخالف ٹیم کو نقصان پہنچائیں، ایسا نہ کرنے کی صورت میں میچ ہاتھ سے نکلنے کا خدشہ ہے۔ آج بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے جہاں آسٹریلیا کی ٹیم نے بغیر کسی نقصان کے 105 رنز بنالیے ہیں۔

آسٹریلیا

Australian-team

ڈیوڈ وارنر اور اسٹیون اسمتھ

اگر آسٹریلوی بلے بازی کا بغور جائزہ لیا جائے تو بلاشبہ یہ جنوبی افریقی ٹیم سے بہت زیادہ بہتر ہے۔ لیکن اِس میں اہم ترین ذمہ داری ڈیوڈ وارنر اور کپتان اسٹیون اسمتھ پر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیریز شروع ہونے سے پہلے ہی جنوبی افریقی گیند بازوں کی جانب سے یہ بیان دیا گیا تھا کہ اُن کی کوشش ہوگی کہ کسی طرح اسمتھ کو روکا جائے۔ اگر جنوبی افریقی گیند باز ان دونوں کو جلدی آؤٹ کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے تو اُن کی پوزیشن کمزور ہوسکتی ہے۔

مچل اسٹارک

اِس امر میں تو کوئی شبہ نہیں کہ آسٹریلیا کے تین تیز گیند باز مچل اسٹارک، جوش ہیزل ووڈ اور پیٹر سڈل اپنی وکٹوں پر حریف کے لیے 'کانٹوں کا بستر' بچھا دیتے ہیں لیکن تینوں میں اگر سب سے بہتر اور خطرناک گیند باز کا نام لیا جائے تو بہرحال وہ مچل اسٹارک ہی ہیں۔ جب اسٹارک انجری سے نجات حاصل کرنے کے بعد واپس آئے تو ماہرین کا خیال تھا کہ وہ اپنے اصل روپ میں آنے میں کچھ وقت لیں گے لیکن پہلی اننگز میں چار وکٹیں لے کر انہوں نے سب پر واضح کردیا کہ نہیں جناب، وہ مکمل طور پر فٹ بھی ہیں اور فارم میں بھی ہیں۔

بہرحال، سیریز کا نتیجہ کچھ بھی ہو، لیکن دو بہترین ٹیموں کے درمیان بہترین میدانوں میں کھیلی جانے والی کرکٹ سے میں تو خوب محظوظ ہورہا ہوں، اور اُمید کرتا ہوں کہ آپ بھی ہوں گے کیونکہ یہاں بلے بازوں کو بھی مدد حاصل ہے اور گیند بازوں کو بھی۔ اِس حوالے سے سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ تمام مقابلے بھرے ہوئے میدان میں ہوں گے جہاں جوشیلے شائقین کھیل کی رونق میں مزید جان ڈال دیں گے۔