جب پوری ٹیم نے بالنگ کروائی

0 1,270

کرکٹ کے کھیل کے بنیادی پہلو دو ہیں، ایک بلے بازی، دوسرا بالنگ یعنی گیند بازی۔ یہ تو ممکن ہے کہ کوئی ٹیم ایک پہلو پر زیادہ انحصار کرتی ہو اور دوسرے پر کم، یا ایک میں زیادہ مضبوط ہو اور دوسرے میں کمزور، لیکن ایسا ہونا بہت مشکل ہے کہ ٹیم کے تمام کھلاڑی بلے بازی کرتے ہوں اور سارے ہی بالرز بھی ہوں۔ اس کے باوجود کرکٹ میں بعض میچز ایسے رہے ہیں جن میں کپتان کو مجبور ہوکر ان سے بھی گیندیں کروانا پڑیں جو کُل وقتی بالر تو کیا، جُز وقتی بالر بھی نہیں تھے۔ کرکٹ جیسے "ظالم" کھیل میں حالات کبھی اتنے سنگین بھی ہوئے ہیں کہ ٹیم کے تمام گیارہ کھلاڑیوں سے گیند کروائی گئی، حتیٰ کہ وکٹ کیپر کو بھی اپنی جگہ سے ہٹایا گیا اور دستانے اتروا کر گیند تھمائی گئی۔ ہے نا حیرت انگیز؟

پہلی بار ایسی صورتحال 1884ء میں پیش آئی۔ وہ کرکٹ کی تاریخ کا سولھواں ٹیسٹ میچ تھا۔ اگست 1884ء میں اوول میں کھیلا گیا یہ تین روزہ مقابلہ انگلستان اور آسٹریلیا کے درمیان تھا۔ مہمان آسٹریلیا نے پہلی اننگز کھیلنا شروع کی تو کھیلتا ہی چلا گیا۔ میزبان ٹیم بالنگ کرواتی رہی لیکن وکٹیں تھیں کہ گرنے کا نام ہی نہ لیتی تھیں۔ تب معاملہ کچھ یوں تھا کہ چونکہ کرکٹ کا کھیل اپنے ابتدائی مراحل میں تھا اس لیے بہت سے قوانین موجود نہیں تھے۔ مثلاً اننگز ڈیکلیئر کرنے کا قانون۔ لہٰذا آسٹریلیا کو ہر حال میں بیٹنگ کرنی تھی اور انگلستان کو مجبوراً تب تک بالنگ کروانی تھی جب تک آسٹریلیا کی تمام دس وکٹیں نہ گر جائیں۔ مجبوراً تمام انگریز کھلاڑیوں نے قسمت آزمائی کی، اور وکٹ کیپر الفریڈ لٹل ٹن نے بھی بالنگ کروائی۔ آخر آسٹریلیا 551 رنز بناکر آؤٹ ہوا جس میں ان کے کپتان بلی مرڈوک نے ٹیسٹ کرکٹ کی پہلی ڈبل سنچری بنانے کا اعزاز بھی حاصل کیا۔ انگلستان نے 311 اوورز کروائے، جس میں چار کھلاڑیوں کو پچاس سے زائد اوورز پھینکنے پڑے۔ بہرحال، چونکہ مقابلہ صرف تین دن کا تھا اس لیے بغیر کسی نتیجے کے ختم ہوا۔

ٹیسٹ کرکٹ کے اس مقابلے ہی میں ایسا موقع آنے سے یوں لگتا تھا کہ اب ایسے اتفاقات متواتر ہوں گے، لیکن پھر اگلے 96 سال تک ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔ مارچ 1980ء میں آسٹریلیا کے ساتھ پاکستان نے وہی کیا جو آسٹریلیا نے انگلستان کے ساتھ کیا تھا۔ فیصل آباد میں کھیلے گئے میچ میں آسٹریلیا نے گریگ چیپل کی ڈبل سنچری اور گراہم یالپ کے 172 رنز کی مدد سے 617 رنز بنائے تھے۔ جواب میں پاکستان کے جاوید میانداد اور وکٹ کیپر تسلیم عارف نے آسٹریلوی گیند بازوں کا خون پسینہ خوب ایک کیا۔ ان دونوں کو آؤٹ کرنے کے لیے کپتان گریگ چیپل نے وکٹ کیپر روڈ مارش تک سے گیند کروائی، لیکن آسٹریلیا اس کے باوجود صرف دو وکٹیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکا اور میچ ڈرا ہوگیا۔ اس میچ میں جاوید میانداد نے 106 جبکہ تسلیم عارف نے 210 رنز بنائے تھے اور دونوں ہی ناٹ آؤٹ رہے تھے۔

اگلی بار ایسا واقعہ پیش آنے میں وقت تو لگا، لیکن 96 سال جتنا طویل عرصہ نہیں، بلکہ "صرف" 22 سال۔ مئی 2002ء میں بھارت دورۂ ویسٹ انڈیز پر تھا اور سینٹ جانز کے میدان پر دونوں ٹیموں کے درمیان سیریز کا چوتھا ٹیسٹ میچ کھیلا جارہا تھا۔ بھارت نے پہلے بلے بازی کرتے ہوئے 513 رنز کا پہاڑ کھڑا کیا تھا، لیکن کالی آندھی نے وہ پہاڑ سر کرلیا۔ کپتان کارل ہوپر، شیونرائن چندر پال اور رڈلی جیکبز نے سنچریاں بنائیں۔ یہاں بھی بھارت کو بالنگ کے شعبے میں ہر کھلاڑی کی خدمات حاصل کرنی پڑیں، حتیٰ کہ وکٹ کیپر اجے رترا نے بھی قسمت آزمائی کی۔ باقاعدہ گیند بازوں کا تو حال ہی نہ پوچھیے، اشیش نہرا نے 49، ظہیر خان نے 48 اور جواگل سری ناتھ نے 45 اوورز کروائے، جبکہ سچن ٹنڈولکر نے بھی 34 اوورز پھینکے، لیکن ویسٹ انڈیز کے تمام کھلاڑی آؤٹ نہیں ہوسکے۔ ویسٹ انڈیز نے 629 رنز بنائے اور میچ آخر ڈرا ہوگیا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹیسٹ کرکٹ میں چوتھی اور تاحال آخری بار یہ اتفاق ایک بار پھر سینٹ جانز ہی کے میدان پر ہوا۔ ایک بار پھر ویسٹ انڈیز کے بلے بازوں ہی نے مخالف ٹیم کو ستایا لیکن اس بار مقابلے پر بھارت نہیں، بلکہ جنوبی افریقا تھا۔ صرف تین سال بعد، یعنی اپریل 2005ء میں جنوبی افریقا نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے 588 رنز بنائے۔ اے بی ڈی ولیئرز، گریم اسمتھ، ژاک کیلس اور ایشویل پرنس نے سنچریاں بنائیں۔ جواب میں ویسٹ انڈیز نے ریکارڈ توڑ ڈالے۔ کرس گیل نے 317 رنز کی طوفانی اننگز کھیلی، رام نریش سروان، شیونرائن چندر پال اور ڈیوین براوو نے سنچریاں بنائیں اور ویسٹ انڈیز کا مجموعہ 747 رنز تک پہنچا دیا۔ جنوبی افریقا نے وکٹ کیپر مارک باؤچر تک کی خدمات حاصل کیں، لیکن میچ فیصلہ کن نہیں بنایا جاسکا۔ 235 اوورز کروانے میں جنوبی افریقا کو یقیناً چھٹی کا دودھ یاد آگیا ہوگا۔

اب گیارہ سال کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن ایسا موقع نہیں آیا ہے۔ آپ کس ٹیم کے تمام گیارہ کھلاڑیوں کو گیند کرواتے ہوئے دیکھنا چاہیں گے؟