مڈل آرڈر کیساتھ غیر ضروری ’’چھیڑ چھاڑ‘‘ کیوں؟

0 1,037

تینوں فارمیٹس میں نتائج کے اعتبار سے پاکستان کی ٹیسٹ ٹیم کو سب سے زیادہ مستحکم قرار دیا جاسکتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس عرصے میں قومی ٹیم کی کارکردگی میں بہت زیادہ اتار چڑھاؤ نہیں آیا مگر اس کے باوجود سلیکشن کمیٹی کی پالیسیوں میں تسلسل نہیں آرہا اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ دیگر فارمیٹس کو ایک طرف ٹیسٹ ٹیم میں بھی کھلاڑیوں کو تیار نہیں کیا گیا۔ بابر اعظم ون ڈے میں پرفارم کرنے کے بعد ٹیسٹ میں اچھی کارکردگی دکھا گیا تو مستقبل کے حوالے سے مڈل آرڈر کی پریشانی کچھ کم ہوتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے جبکہ محمد رضوان کو ابھی تک آزمایا نہیں گیا۔ یاسر شاہ کا متبادل کون سا نوجوان لیگ اسپنر ہوگا اس کے بارے میں سلیکشن کمیٹی کو کچھ نہیں پتہ کیونکہ کبھی کسی لیگ اسپنر کو اے ٹیم میں شامل کرلیا جاتا ہے تو کبھی دوسرے کوجبکہ سب سے اہم مسئلہ اوپننگ کا ہے جس کی وجہ سے مڈل آرڈر بھی متاثر ہورہا ہے۔

ممکن ہے بہت سے لوگوں کو اس بات پر اعتراض ہو کہ میں نے کیوں لکھا کہ اوپننگ کا شعبہ مسائل کا شکار ہے کیونکہ اظہر علی اور سمیع اسلم کی جوڑی مجموعی طور پر عمدہ کارکردگی دکھا رہی ہے مگر اس جوڑی کے وجود میں آنے سے پاکستان کا مڈل آرڈر ’’ڈسٹرب‘‘ ہوگیا ہے۔ کیسے؟ ذرا سا ماضی میں چلتے ہیں جب دورہ انگلینڈ میں چار ٹیسٹ میچز کیلئے تین اوپنرز کا انتخاب کیا گیا مگر دو اوپنرز انگلینڈ کی مشکل کنڈیشنز میں ’’جواب ‘‘ دے گئے اور مجبوری کے عالم میں اظہر علی کو ون ڈاؤن پوزیشن سے اُٹھا کر اوپنر بنایا گیا، اسد شفیق کو نمبر تین پر ’’ترقی‘‘ دی گئی اور افتخار احمد کو ڈیبیو کروادیا گیا۔ یہ تمام ردوبدل اوپنرز کی ناکامی کے سبب ممکن ہوا تھا۔ دورہ انگلینڈ کے آخری ٹیسٹ میں اوپنرز بھی چل گئے اور اسد شفیق نے بھی نمبر تین پر رنز کردیے تو سلیکٹرز نے ناکامی کا شکار ہونے والے افتخار کو ڈراپ کرکے نواز کو ڈیبیو کروادیا مگر یہ سوچنے کی زحمت نہیں کی کہ اسد شفیق کو نمبر تین پر مستقل کھلانا درست فیصلہ ہے یا نہیں۔

2010ء میں ٹیسٹ ڈیبیو کرنے کے بعد اسد شفیق نے 78میں سے 61مرتبہ نمبر چھ پر بیٹنگ کی ہے جبکہ نمبرپانچ اور سات پر اننگز کی تعداد سات ہے۔ جب اسدشفیق نے پورے کیرئیر مڈل آرڈر میں بیٹنگ کی ہے تو پھر غیر ضروری طور پر اسد کو ٹاپ آرڈر میں کیوں دھکیلا جارہا ہے۔ انگلینڈ کیخلاف برمنگھم میں چھٹے نمبر پر کھیلتے ہوئے اسد شفیق کو دونوں اننگز میں صفر کا سامنا کرنا پڑا جبکہ اوول میں اسد شفیق کو نمبر تین پر ترقی دی گئی جس نے نمبر چار پر سنچری اسکور کردی(نمبر تین نائٹ واچ مین کو بھیجا گیا) اور دوسری اننگز میں اسد کی بیٹنگ نہیں آسکی۔ ویسٹ انڈیز کیخلاف پہلی چار اننگز میں تین نصف سنچریاں کرنے والے بیٹسمین کو شارجہ ٹیسٹ کی دونوں اننگز میں صفر کا سامنا کرنا پڑا جبکہ مڈل آرڈر میں نوجوان آل راؤنڈر محمد نواز کی ناکامی نے ٹیم مینجمنٹ کی مشکلات میں اضافہ کردیا ہے۔ اب خیال یہی ہے کہ نیوزی لینڈ میں نواز کو سائیڈ لائن کرکے اسد شفیق کو دوبارہ نمبر چھ پر بھیج دیا جائے اور اظہر علی ون ڈاؤن پوزیشن پر واپس آکر شرجیل خان کیلئے جگہ خالی کردیں۔

اسد شفیق کو شروع دن سے مصباح اور یونس کا متبادل قراردیا جارہا ہے تو پھر یہی تیاری کرنا چاہیے کہ جب یہ دونوں عظیم بیٹسمین ٹیسٹ کرکٹ کو خیر باد کہیں تو اسد شفیق نمبر چار یا پانچ پر کھیلتے ہوئے ذمہ داری اُٹھائے جبکہ اظہر علی اپنی مستقل پوزیشن نمبر تین پر ہی کھیلے۔ اگر اظہرعلی اور اسد شفیق مستقل پرفارم کرنے والے بیٹسمین ہیں تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ جس پوزیشن پر کوئی دوسرا بیٹسمین ناکام ہو وہاں ان دنوں میں سے کسی ایک کو کھلا دیا جائے۔ اظہر علی کو مجبوری کے عالم میں اوپنر بنایا گیا جس نے اس نمبر پر ٹرپل سنچری سمیت شاندار کارکردگی دکھائی مگر اب نمبر چھ بیٹسمین کی ناکامی کو چھپانے کیلئے اظہر کو نمبر تین پر بھیجنے کی تجویز گردش کررہی ہے۔

سلیکشن کمیٹی کی خواہش ہے کہ کسی بھی طرح نیوزی لینڈ میں شرجیل کو ٹیسٹ کیپ مل جائے مگر انہیں ٹیسٹ ڈیبیو پر نصف سنچری اسکور کرنے والا بابر اعظم دکھائی نہیں دے رہا جسے نمبر تین پوزیشن پر سیٹ کیا جاسکتا ہے جو تکنیکی اعتبار سے شرجیل سمیت دیگر کئی اوپنرز سے بہتر بھی ہے۔ محمد نواز کو ٹیسٹ کیپ دے کر ایک غلطی کی گئی تھی جس کا ازالہ کرنے کیلئے دوسری غلطی کی تیاری کی جارہی ہے۔ اسد شفیق کو نمبر چھ پر واپس لانا درست فیصلہ ہوگا مگر اوپننگ پوزیشن پر رنز کے ڈھیر لگانے والے اظہر علی کو واپس ون ڈاؤن پر لانا درست نہ ہوگا۔ جس طرح ماضی میں اظہر علی کو نمبر تین پوزیشن پر سیٹ کیا گیا تھا بالکل اسی طرح اب یہ نمبر بابر اعظم کو دیا جاسکتا ہے جسے اب ٹیسٹ کرکٹ سے دور رکھنا نوجوان بیٹسمین کیساتھ زیادتی ہوگی۔

نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا میں اگر پاکستان کی بیٹنگ لائن کو تاش کے پتوں کی ’’پھینٹا‘‘ گیا تو پھر اس خطے میں ’’پھینٹی‘‘ پڑنے کا امکان بڑھ جائے گااس لیے مڈل آرڈر کیساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ حقیقی ’’تیسرا اوپنر‘‘ تلاش کیا جائے جو پاکستان کی فرسٹ کلاس سے مل سکتا ہے مگر چار رکنی سلیکشن کمیٹی وہ اوپنر ٹی20 فارمیٹ میں ڈھونڈھ رہی ہے!!