کھیلوں کے ناقابل فراموش حادثے

0 1,208

کھیل زندگی کا لازمی جزو اور کھلاڑی ملک و قوم کا اثاثہ ہوتے ہیں لیکن جہاں مقابلہ سخت ہو وہاں حادثات کا ڈر تو لگا رہتا ہے۔

قسمت کی ستم ظریفی کہیں یا کچھ اور، کئی نام ور کھلاڑی ہولناک حادثوں میں اپنی زندگی گنوا بیٹھے۔ کبھی بے رحم سیاست یا پھر دہشت گردی اور کبھی انٹرنیشنل مافیاز نے کھیلوں کی دنیا کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔

ویسے تو بچپن سے ہم یہ قصہ سنتے آرہے ہیں کہ جرمنی کے ماڈل ڈکٹیٹر ایڈولف ہٹلر نے اپنے ملک کی کرکٹ ٹیم کو صرف اس وجہ سے قتل کردیا تھا کہ کئی دن تک ٹیسٹ میچ کھیلنے کے باوجود نتیجہ 'ڈرا' کی صورت میں نکلا تھا۔

جبکہ حقیقت اس کے بلکل برعکس ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ نہ کبھی جرمنی کی کسی قومی کرکٹ ٹیم کا وجود رہا ہے، نہ ریکارڈ بک میں ایسا کوئی واقعہ درج ہے اور نہ ہی بین الاقوامی سطح پر کبھی جرمن ٹیم نے کبھی کسی کرکٹ میچ میں حصہ لیا۔

ہٹلر کے ہاتھوں کھلاڑیوں کی موت کی من گھڑت کہانی یا مفروضہ تو ہضم نہیں ہوتا، لیکن ایسے کئی افسوسناک واقعات رونما ہوچکے ہیں جب پرستار اپنے محبوب کھلاڑیوں کو پھر کبھی میدان میں کھیلتے ہوئے نہ دیکھ پائے۔

میونخ اولمپکس میں خون کی ہولی

عموماَ کہا جاتا ہے کہ کھیل اور سیاست دو الگ الگ چیزیں ہیں اور کھیل پر سیاست کو اثر انداز نہیں ہونا چاہئے، لیکن سنہ 1972 کے میونخ اولمپکس کے میدان میں خون کی ایسی ہولی کھیلی گئی جس نے پر امن کھیلوں کے دامن کو لہولہان کر دیا۔

میونخ کے اولمپک ولیج میں ایک دہشت گرد گروہ نے 11 اسرائیلی ایتھلیٹس کو گولیاں مار کر قتل کردیا۔ اس بہیمانہ ٹارگٹ کلنگ میں ایک جرمن پولیس افسر بھی مارا گیا۔

حملے میں فلسطینی گروپ 'سٹرڈے سیپٹمبر' کو ملوث قرار دیا گیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق دہشت گرد گروہ کا مطالبہ تھا کہ اسرائیلی حکام کے پاس یرغمال 234 فلسطینیوں کو رہا کیا جائے۔

مانچسٹر یونائیٹڈ کے لیے سیاہ ترین دن

'دی میونخ ایئر ڈزاسٹر' کو برطانوی کھیلوں کی تاریخ کا بدترین حادثہ تصور کیا جاتا ہے۔ چھ فروری 1958 میں میونخ ایئرپورٹ پر برٹش ایئرویز کا چارٹر طیارہ اپنی پرواز بھرنے کی تیسری کوشش میں گر کر تباہ ہوگیا۔ حادثے نے 44 مسافروں میں سے 23 کی جان لے لی۔

ManU-The-Last-Line-Up

ہلاک ہونے والوں میں انگلش پریمیئر لیگ کے کلب مانچسٹر یونائیٹڈ کے 8 کھلاڑی لائم بلی ویلن، ڈیوڈ پیگ، ڈنکن ایڈورڈز، ایڈی کول مین، ٹومی ٹیلر، جیف بینٹ، مارک جونز اور روجر بائرن بھی شامل تھے۔ اسی حادثے کے باعث 6 فروری 1958 کا دن مانچسٹر یونائیٹڈ فٹ بال کی تاریخ کا سیاہ ترین دن کہا جاتا ہے۔

میونخ سانحے یاد میں اولڈ ٹریفورڈ میں حادثے کے وقت کے پیش نظر گھڑیال کو ساکت کردیا گیا۔ تصویر بشکریہ ڈان ڈاٹ کام
میونخ سانحے یاد میں اولڈ ٹریفورڈ میں حادثے کے وقت کے پیش نظر گھڑیال کو ساکت کردیا گیا۔ تصویر بشکریہ ڈان ڈاٹ کام

دی کلرفل الیون

سنہ 1989 میں نیدرلینڈ کی سورینام کمیونٹی سے وابستہ فٹ بال ٹیم کے کھلاڑی جنوب امریکی ملک سورینام میں ایک چیریٹی میچ کھیل کر واپس جارہے تھے کہ پیرا ماریبو ایئرپورٹ کے قریب ان کا طیارہ کریش ہوگیا۔ اس اندوہناک حادثے میں فٹ بال ٹیم کے 11 کھلاڑی لقمہ اجل بن گئے۔

فارمولا ون کے سپراسٹار کی موت

ayrton-senna

فارمولا ون میں 3 بار ورلڈ چیمپیئن رہنے والے برازیلین سپر اسٹار آئرٹن سینا کا شمار عظیم ترین ریس ڈرائیورز میں ہوتا ہے جو سنہ 1994 میں اٹلی کے شہر ایمولا میں مارینو گران پرکس کے فیصلہ کن مرحلے میں حادثے کا شکار ہوگئے جس میں وہ سب سے آگے جارہے تھے۔

آئرٹن سینا کی کار سے پیش آنے والے حادثے میں کسی 'سازش' کی بو بھی محسوس کی گئی مگر ان کی موت کا معمہ کبھی حل نہ ہو سکا۔ سینا کی موت کے سوگ میں برازیل کا قومی پرچم 3 دن تک سرنگوں رہا۔

میچ ہارنے پر فٹبالر قتل

کھیلوں کے شائقین اکثر طیش میں آکر اسٹیڈیم میں اور اسٹیڈیم کے باہر الٹی سیدھی حرکتیں کرتے رہتے ہیں مگر کسی کھلاڑی کی جان لینے کی قطعاَ اجازت نہیں دی جاسکتی۔

سنہ 1994 میں امریکا میں منعقدہ فٹ بال ورلڈ کپ کے دوران کولمبیا کے کھلاڑی آندریس ایسکوبر سے امریکا کے مدمقابل میچ میں غلطی سے اپنی ہی ٹیم کے خلاف گول ہوگیا جس کے باعث میزبان کولمبیئن ٹیم اگلے رائونڈ کی دوڑ سے باہر ہوگئی۔

آندریس ایسکوبر میچ کے بعد میڈیلن شہر کے ایک نائٹ کلب میں موجود تھے، جہاں ایک خاتون سمیت 4 سر پھرے شائقین نے انہیں کولمبیا کی شکست کا ذمہ دار قرار دے کر پہلے جھگڑا کیا اور بعد میں ان پر لگاتار 6 فائر کیے، آندریس کو فوری طور پر قریبی ہسپتال منتقل کیا گیا مگر وہ جانبر نہ ہوسکے۔

تحقیقات سے پتا چلا تھا کہ قاتلوں کا تعلق کولمبیا کی ایک طاقت ور تنظیم سے تھا اور ٹیم کے دیگر کھلاڑیوں کو بھی قتل کی دھمکیاں موصول ہوئی تھیں۔

آندریس کی آخری رسومات میں ایک لاکھ 20 ہزار لوگ شریک ہوئے جبکہ بطور احتجاج اور شدت غم سے آندریس کے کافی ساتھیوں نے ٹیم کو خیرباد کہا یا پھر ریٹائرمںٹ لے لی۔

باکسر راکی مارسیانو، جو صرف موت سے مات کھا گئے

باکسنگ لیجنڈ راکی مارسیانو اپنے ارادوں، لڑائی کے انداز اور دفاع میں پہاڑ جیسے مضبوط تھے، وہ تاحیات 'ناقابل شکست' رہے اور کبھی کسی سے مات نہیں کھائی۔ سوائے موت کے انہوں نے کسی کے آگے گھٹنے نہیں ٹیکے۔

راکی مارسیانو کا تعلق امریکا سے تھا، وہ 1952 سے 1956 تک 4 سال باکسنگ کے ورلڈ ہیوی ویٹ چیمپیئن برقرار رہے اور 8 سالہ مختصر کریئر میں 6 بار اپنے اعزاز کا کامیابی سے دفاع کیا۔

31 اگست 1969 وہ بدقسمت دن تھا جب امریکی شہر لووا کے قریب نجی مسافر طیارہ موسم کی خرابی کے باعث کریش ہوگیا اور اس طیارے میں سوار لیجنڈری باکسر راکی اپنی 46 ویں سالگرہ سے ایک ماہ قبل موت کی آغوش میں چلے گئے۔

راکی مارسیانو کا ایک قول مشہور تھا 'میں نہیں چاہتا کہ لوگ مجھے شکست خوردہ چیمپیئن کے نام سے یاد رکھیں'۔

ریسلر 'کنگ کانگ' کا دوران میچ انتقال

برطانیہ کے پروفیشنل ریسلر میلکم کرک رنگ میں 'کنگ کانگ کرک' کے نام سے جانے جاتے تھے۔ وہ اس شعبے میں آںے سے پہلے کان کنی کرتے تھے اور رگبی کے بھی مستند کھلاڑی رہے۔ اگست 1987 میں نارفوک کے ہپی ڈروم سرکس میں ریسلنگ کے ٹیگ ٹیم مقابلے میں کنگ کانگ کی موت واقع ہوئی۔

وہ اپنے ساتھی کنگ کینڈو کے ہمراہ حریف ریسلرز سے نبرد آزما تھے۔ میچ کے درمیان اچانک کنگ کانگ کی طبیعت بگڑ گئی۔ انہیں بلا تاخیر قریبی ہسپتال پہنچایا گیا جہاں ڈاکٹر نے ان کے موت کی تصدیق کی۔ میڈیکل رپورٹ میں بتایا گیا کہ کنگ کانگ کرک دل کے عارضے میں مبتلا تھے اور اسی سبب ان کی موت واقع ہوئی۔

فٹ بال میچ کے شائقین میں تصادم،39 ہلاک

29 مئی 1985 کو بیلجیئم کے ہیسل اسٹیڈیم میں یورپ کی دو سرفہرست ٹیموں انگلش کلب لیورپول اور اطالوی کلب یووینٹس کے مابین یورپیئن کپ کا فائنل شروع ہونے والا تھا، اسٹیڈیم میں لگ بھگ 60 ہزار شائقین موجود تھے جبکہ سیکڑوں پرستار ٹکٹ لیے بنا میچ دیکھنے پہنچ گئے۔

اس دوران دونوں ٹیموں کے حامی آپس میں گتھم گتھا ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے اسٹیڈیم میدان جنگ کا منظر پیش کرنے لگا۔ شائقین نے ایک دوسرے پر پتھر برسائے، تصادم اور دھکم پیل کے دوران اسٹیڈیم کی ایک کمزور دیوار زمیں بوس ہوگئی، جس کے نیچے دب کر 39 لوگ مارے گئے اور سیکڑوں زخمی ہوئے۔

یووینٹس کلب یہ میچ 0- 1 سے جیتا لیکن جھگڑے اور انسانی جانوں کے ضیاع کی وجہ سے کسی کو میچ کے نتیجے سے کوئی سروکار نہ تھا۔ لیور پول ٹیم کے مداح تصادم میں ذمے دار قرار پائے، جبکہ دونوں فٹ بال ٹیموں پر اگلے 5 برس تک عالمی مقابلوں میں حصہ لینے پر پابندی عائد کی گئی۔

آسمانی بجلی پوری ٹیم کو نگل گئی

سنہ 1999 میں کانگو کے مشرقی صوبہ کاسائی میں مقامی فٹ بال ٹیموں کے مابین جاری میچ کے دوران اچانک بادل گرجے اور بجلی کڑکی۔ آسمانی بجلی کی زد میں آکر مہمان ٹیم کے گیارہ کے گیارہ کھلاڑی ہلاک ہوگئے جبکہ میزبان ٹیم کے تمام کھلاڑی معجزانہ طور پر محفوظ رہے۔

ہنسی کرونئے کی موت کا معمہ

ہنسی کرونئے میچ فکسنگ کی تحقیقات کے سلسلے میں قائم کنگ کمیشن کے سامنے حلف اٹھاتے ہوئے۔ فوٹو اے ایف پی
ہنسی کرونئے میچ فکسنگ کی تحقیقات کے سلسلے میں قائم کنگ کمیشن کے سامنے حلف اٹھاتے ہوئے۔ فوٹو اے ایف پی

جنوبی افریقی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان ہنسی کرونئے میچ فکسنگ میں رسوا ہونے کے 26 ماہ بعد یکم جون 2002 کو ایک حادثے میں اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔ ان کا طیارہ جنوبی افریقہ کے ویسٹرن کیپ کے علاقے جارج کے قریب گر کر تباہ ہوا۔ موت کے وقت کرونئے کی عمر32 سال تھی۔

کرونئے نے 53 میچز میں جنوبی افریقہ کی کپتانی کی۔ دنیائے کرکٹ اپریل 2000 میں اس وقت شدید صدمے کا شکار ہوئی جب یہ اطلاعات سامنے آئیں کہ کرونئے جیسا کھلاڑی بھی میچ فکسنگ میں ملوث ہے، جس کا انہوں نے اعتراف بھی کیا۔

بھارت کی نئی دہلی پولیس نے 13سال بعد میچ فکسنگ سکینڈل کی چارج شیٹ پیش کی۔ رپورٹس میں بتایا گیا کہ سال 2000 میں جنوبی افریقہ اور بھارت کی کرکٹ ٹیموں کے مابین کھیلا گیا میچ فکس تھا۔ اس میچ سے پہلے چودہ مارچ 2000 کو ہنسی کرونئے بکی سے ملے تھے۔

کچھ حلقوں نےہنسی کرونئے کی موت کو محض حادثہ ماننے سے انکار کیا اور یہ شک ظاہر کیا کہ میچ فکسنگ مافیا پر پردہ برقرار رکھنے کے لئے کرونئے کو راستے سے ہٹادیا گیا ہے۔

یہ باتیں اس وقت بھی سننے کو ملیں جب کرونئے کی کپتانی میں جنوبی افریقہ کی کوچنگ کرنے والے باب وولمر 2007 میں ویسٹ انڈیز میں منعقدہ ورلڈ کپ کے دوران اپنے ہوٹل کے کمرے میں مردہ پائے گئے تھے۔

بعد ازاں، جنوبی افریقہ کے سابق کپتان کلائیو رائس نے الزام لگایا کہ باب وولمر اور ہنسی کرونئے کو جوا مافیا نے قتل کرایا تھا۔ کلائیو رائس نے کہا کہ باب وولمر میچ فکسنگ سے متعلق کافی معلومات رکھتے تھے جبکہ وہ نہیں سمجھتے کہ کرونئے کی موت حادثاتی تھی بلکہ انہیں پیش آنے والے فضائی حادثے کے پیچھے بھی جوا مافیا کا ہاتھ تھا۔

سری لنکن ٹیم پر لاہور میں دہشت گرد حملہ

3 مارچ 2009 کو لاہورمیں میزبان سری لنکن ٹیم کی بس پر دہشت گرد حملے نے پاکستان میں کرکٹ اور دیگر کھیلوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ایک ایسا زخم دیا جو کئی سال بیت جانے کے باوجود بھر نہیں پایا۔

میزبان ٹیم کو ٹیسٹ میچ کے تیسرے دن کے کھیل کے لئے ہوٹل سے قذافی اسٹیڈیم لایا جارہا تھا، اس دوران لبرٹی چوک کے تین اطراف سے راکٹ لانچر، ہینڈ گرنیڈز اور کلاشنکوفوں سےحملہ کر دیا گیا۔

سری لنکن ٹیم کو حملے کے بعد فوری طور پر فوجی ہیلی کاپٹر میں سری لنکا پہنچایا گیا۔ فوٹو اے ایف پی
سری لنکن ٹیم کو حملے کے بعد فوری طور پر فوجی ہیلی کاپٹر میں سری لنکا پہنچایا گیا۔ فوٹو اے ایف پی

دس سے بارہ حملہ آوروں کی اندھا دھند فائرنگ سے سری لنکا کے کھلاڑی تھرنگا وتانا، تھیلان سمارا ویرا، مہیلا جے وردھنے، اجنتھا مینڈس اور کمار سنگارا زخمی ہوئے۔ پاکستانی امپائر احسن رضا بھی زخمیوں میں شامل تھے۔

مہمان ٹیم کو حملے آوروں سے بچانے کی کوشش میں ایلیٹ فورس کے 6 اہلکاروں سمیت 8 افراد شہید ہوئے۔ سری لنکا کے زخمی کھلاڑیوں کو فوجی ہیلی کاپٹر کے ذریعے اسٹیڈیم سے ایئرپورٹ منتقل کیا گیا، جہاں سے ن خصوصی طیارے میں وطن واپس بھیجا گیا۔

دہشت گرد حملے کے بعد انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے پاکستان کو کھیلوں کے لئے غیر محفوظ ملک قرار دیتے ہوئے ورلڈ کپ 2011 کی میزبانی سے محروم کیا جبکہ ایشیا کپ کے میچز کا انعقاد بھی ممکن نہ ہو پایا اور یوں پاکستان پر انٹرنیشنل کرکٹ کے دروازے بند ہوگئے۔

تین مارچ 2009 سے آج تک ٹیسٹ کی ٹاپ 8 ٹیموں میں سے کسی نے بھی پاکستان کا دورہ نہیں کیا جبکہ قومی ٹیم نے 'ہوم سیریز' کے لئے متحدہ عرب امارات کو اپنا مستقل مسکن بنا لیا۔

یہ مضمون پہلے ڈان نیوز ڈاٹ ٹی وی پر شائع ہوا اور اجازت کے بعد کرک نامہ پر شیئر کیا گیا ہے۔