مشکل دورے، فتح کی امید اور پاکستانی تیز باؤلنگ
ٹیسٹ میں پاکستان کے حالیہ نتائج پر آپ سب کی طرح میں بھی خوش ہوں، خوش نہیں بلکہ بہت خوش ہوں کہ اِسی کارکردگی کی بدولت تاریخ میں پہلی مرتبہ ٹیسٹ میں نمبر ایک مقام حاصل ہوا۔ لیکن مسلسل فتوحات کی وجہ سے کمیوں اور کوتاہیوں کو نظر انداز کرنا درست روش نہیں ہے۔ اگلی منزلوں کو نظر میں رکھیں تو اب تک جو راستے میسر آئے ہیں وہ نسبتاً آسان اور ہموار تھے، اس لیے گاڑی کی خرابی محسوس نہیں ہوئی، لیکن اِس سے پہلے کہ خستہ حال سڑک پر گاڑی ہمت ہار جائے، بہتر یہی ہے کہ مکمل مرمت کروالی جائے تاکہ مشکل وقت میں تنگ نہ کرے۔
آسان الفاظ میں یہ کہ قومی ٹیم اِس وقت دورۂ نیوزی لینڈ و آسٹریلیا پر ہے۔ نیوزی لینڈ کے حوالے سے تو جذبے ضرور آسمانوں کو چھو رہے ہوں گے کہ وہاں گزشتہ 30 سالوں میں قومی ٹیم کوئی سیریز نہیں ہاری، لیکن آسٹریلیا میں معاملہ یکسر مختلف ہے۔ 1980ء کے بعد سے اب تک قومی ٹیم کو وہاں صرف دو میچوں میں فتوحات حاصل ہوئی ہیں اور آخری بار کوئی ٹیسٹ 1995ء میں جیتا تھا۔ آخری بار جب پاکستان آسٹریلیا گیا تھا تو تمام ٹیسٹ، سارے ایک روزہ اور سب ٹی ٹوئنٹی میچز میں شکست کھائی تھی۔ اِن حقائق کی روشنی میں یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ آسٹریلیا کا دورہ قومی ٹیم کے لیے کتنا مشکل ہوتا ہے اور آئندہ بھی کس قدر دشوار ہوگا۔ کانٹوں کی سیج ثابت ہونے والا دورۂ آسٹریلیا کے حوالے سے ماضی کے بڑے بڑے نام بھی اقرار کرچکے ہیں کہ ٹیسٹ کرکٹ کی مشکلات کا اندازہ آسٹریلیا میں کھیل کر ہوا۔
البتہ گزشتہ چند ماہ سے ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستان کی کارکردگی اور آسٹریلیا کی پریشانیوں کو مدنظر رکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ گزشتہ کئی دہائیوں میں پاکستان کا یہ پہلا دورہ ہوگا جب کوئی ٹیسٹ میچ، بلکہ سیریز جیتنے کے بھی، امکانات موجود ہیں،۔ لیکن اِس ممکنہ فتح کا دارومدار بڑی حد تک اِس بات پر ہے کہ پاکستانی ٹیم کے تیز گیند باز کس طرح کی کارکردگی پیش کرتے ہیں۔
آسٹریلیا جانے سے پاکستان نے دورۂ نیوزی لینڈ کے پانچ تیز گیند بازوں کا انتخاب کیا ہے جن میں محمد عامر، وہاب ریاض، راحت علی، سہیل خان اور عمران خان سینئر شامل ہیں۔ جب بھی پاکستانی تیز گیندبازوں کا ذکر ہو تو بھلا 90ء کی دہائی کا وہ دور کیسے بھلایا جا سکتا ہے جب وسیم اکرم اور وقار یونس مخالفین کے لیے ایک ڈراؤنا خواب تھے۔ افسوس بلکہ حیرت یہ ہے کہ اُس دور میں بھی قومی ٹیم آسٹریلیا میں فتح کے جھنڈے گاڑنے میں ناکام رہی۔ یہ وہ عہد تھا جب "2 ڈبلیوز" کی وجہ سے دیگر گیند بازوں کو ٹیم میں مستقل جگہ بنانے کا موقع نہیں ملتا تھا اور قومی ٹیم میں ان کی آوت جاوت لگی رہتی تھی، اسی وجہ سے وہ مثالی کارکردگی پیش کرنے میں ناکام رہے۔ اُس دور میں وسیم اور وقار کے علاوہ ٹیم کا حصہ بننے والے تیز گیند بازوں کا باؤلنگ اوسط لگ بھگ 34 کے قریب تھا۔ آج المیہ یہ ہے کہ دورہ نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کے لیے قومی ٹیم جن پانچ تیز گیند بازوں پر انحصار کررہی ہے اُن کی مشترکہ اوسط بھی لگ بھگ اتنی ہی ہے۔ اب یہ سمجھنا ہرگز مشکل نہیں کہ تیز گیند بازی کے حوالے سے پاکستان اس وقت کس صورتحال سے دوچار ہے۔
یہ سارے حقائق پاکستان کرکٹ کے مداحوں کے لیے ہرگز خوشی کا سبب نہیں بن رہے ہوں گے۔ لیکن یہاں تک کیسے پہنچی؟ اس کی وجوہات پر غور کرنا ضروری ہے۔ گزشتہ 9 سالوں میں پاکستان کرکٹ بہت مشکل دور سے گزری۔ غیر یقینی کی کیفیات ہمہ وقت طاری رہیں۔ ایک طرف ملک میں دہشت گردی تو دوسری جانب کھلاڑیوں کے آپس کے جھگڑے سر درد بنے، یہ مسائل حل ہوئے تو اسپاٹ فکسنگ نے قومی ٹیم کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ اِن مسائل کا ایک "تحفہ" تو ہوم گراؤنڈ سے محرومی ہے اور دوسرا اپنے دو بہترین گیند بازوں محمد آصف اور محمد عامر کی پانچ سال طویل ٹیم دوری۔
اب پاکستان پچھلے 7 سالوں سے اپنی 'ہوم سیریز' ملک کے بجائے متحدہ عرب امارات میں کھیلنے پر مجبور ہے۔ گو کہ یہاں نتائج اچھے ملے ہیں اور پاکستان کبھی کوئی سیریز نہیں ہارا لیکن درحقیقت اپنے میدانوں سے دوری پاکستان کرکٹ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا رہی ہے۔ ریکارڈز ضرور بن رہے ہیں لیکن دھیمی اور مردار وکٹیں بلے بازوں کی تکنیک و صلاحیت بربار کر سکتی ہیں۔ عظیم بلے باز محمد یوسف نے مثال دی کہ 2014ء میں آسٹریلیا کے خلاف امارات میں ہونے والے دو ٹیسٹ میچز میں پاکستانی بلے بازوں نے 9 سنچریاں بنائیں لیکن حالیہ دورۂ انگلستان میں چار ٹیسٹ میں صرف چار۔ بنیادی وجہ واضح ہے کہ ہمارے بلے بازوں کو مشکل اور تیز وکٹوں پر کھیلنے کا موقع ہی میسر نہیں آ رہا۔
بلے بازوں کی پریشانی تو بہرحال چھوٹی ہے اصل مشکل گیند بازوں کو ہے، جو کبھی پاکستان کی اصل طاقت ہوا کرتے تھے۔ مردار وکٹوں پر گیند بازی سے ان کا اوسط مسلسل خراب ہو رہا ہے اور حوصلے پست ہوتے جا رہے ہیں۔ وہ پاکستان جو کبھی اپنے تیز گیند بازوں کی وجہ سے پہچانا جاتا تھا اب وہی اس کی تشویش کی سب سے بڑی وجہ ہیں۔ اب ان باؤلرز کا امتحان نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کی وکٹوں پر ہوگا۔ اگر وہاں ان پانچوں نے کامیابیاں سمیٹیں تو ان خدشات پر مہر تصدیق ثبت ہو جائے گی کہ مردار وکٹوں کی وجہ سے ہمارے باؤلرز کا کیریئر خراب ہو رہا ہے۔
پاکستان کی فاسٹ باؤلنگ کے اس مقام تک پہنچنے کی ایک اہم وجہ ڈومیسٹک کرکٹ کا خستہ نظام بھی ہے۔ یعنی جو کسی بھی ملک میں کرکٹ کی بنیاد ہے، وہی سسٹم ٹھیک نہیں۔ صورت حال یہ ہے کہ نہ تیز گیند بازوں کے لیے مددگار وکٹیں ہیں، نہ سہولیات مثالی اور نہ ہی معیار۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت ہمیں صرف 10 ایسے باؤلرز میسر ہیں جنہوں نے 20 سال کی عمر سے پہلے محض دس وکٹیں حاصل کی ہوں۔
ان حالات میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ وسیم اکرم، وقار یونس اور شعیب اختر جیسے 'ہیرے' ہمہ وقت کسی ٹیم کو میسر نہيں آتے۔ ایسے کھلاڑی شاذونادر ہی پیدا ہوتے ہیں اور اکثریت اوسط یا اس سے کچھ اوپر کے درجے کی ہوتی ہے جنہیں اچھی وکٹوں اور تربیت کی ضرورت پڑتی ہے۔ ایسا نہ ہونے کی صورت میں ان سے کارکردگی کی بھی توقع نہیں رکھی جا سکتی۔