گرین ٹاپ... گرین شرٹس کا منتظر!

0 1,169

نیوزی لینڈ میں پاکستانی ٹیم کا ریکارڈ نہایت شاندار رہا ہے جو گزشتہ تین عشروں سے کیویز کے دیس میں ناقابل شکست ہے جہاں 1985ء میں ایک سیریز جیتنے کے بعد نیوزی لینڈ کی ٹیم اپنے میدانوں پر آٹھ سیریزوں میں پاکستان کو کبھی زیر نہیں کرسکی جبکہ دیگر تمام ٹیموں کے مقابلے نیوزی لینڈ میں فتح و شکست کے ریکارڈ کے معاملے میں بھی پاکستانی ٹیم دیگر تمام ٹیموں سے آگے ہے۔ کیوی کپتان کین ولیم سن اپنے میدانوں پر پاکستان کیخلاف ناکام رہے ہیں جبکہ دوسری طرف یونس خان نے نیوزی لینڈ میں 65سے زائد کی اوسط سے رنز اسکور کیے ہیں۔ یہ تمام اعدادوشمار پاکستان کے حق میں جاتے ہیں اور ماضی کو سامنے رکھتے ہوئے پاکستان کو نیوزی لینڈ پر واضح برتری ہے اور شاید اسی ریکارڈ کو سامنے رکھتے ہوئے نیوزی لینڈ نے کرائسٹ چرچ میں گرین ٹاپ وکٹ تیار کی ہے تاکہ پاکستان کی بیٹنگ لائن میں شگاف ڈالا جائے۔

ہیگلے اوول، کرائسٹ چرچ کی وکٹ روایتی طور پر اسپنرز کیلئے سازگار ثابت ہوئی ہے جہاں پہلے تین دن وکٹ پر موجود باؤنس فاسٹ بالرز اور بیٹسمینوں کے درمیان اچھے مقابلے کا سبب بنتا ہے جبکہ اگلے دو دن یہ وکٹ کسی حد تک اسپنرز کیلئے سازگار ہوجاتی ہے۔ اگر اعدادوشمار کی بات کی جائے تو یہاں کھیلے گئے دو ٹیسٹ میچز میں پہلی اننگز کا اسکور 441 اور 370رہا ہے اور دونوں مرتبہ یہ اسکور نیوزی لینڈ نے بنایا مگر دونوں مرتبہ ٹاس جیتنے والی ٹیم نے وکٹ میں موجود تازگی نے ٹاس جیتنے والے کپتانوں کو پہلے بالنگ کرنے کے فیصلے پر اُکسایا۔

دس دن قبل کھیلے گئے فرسٹ کلاس مقابلے میں کیوی لیگ اسپنر ٹوڈ ایسٹل نے آخری اننگز میں پانچ وکٹیں لیتے ہوئے 158رنز کا کامیابی سے دفاع کیا تھا۔ جبکہ اسی میچ میں بائیں ہاتھ کے اسپنر اعجاز پٹیل نے دونوں اننگز میں پانچ پانچ وکٹیں اپنے نام کیں۔ ظاہر ہے کہ ٹوڈ ایسٹل کا موازنہ کسی طور پر بھی یاسر شاہ کیساتھ نہیں کیا جاسکتا لیکن نیوزی لینڈ نے دستیاب وسائل کیساتھ اسپن بالنگ کو بھی مضبوط کیا ہے۔ اس لحاظ سے ہیگلے اوول کی وکٹ پر یاسر شاہ کی کامیابی کے امکانات کافی زیادہ تھے اور شاید اسی لیے کیویز نے وکٹ پر گھاس چھوڑ کر پاکستانی بیٹسمینوں کا امتحان لینے کا منصوبہ بنالیا ہے جو شارجہ کی سیدھی وکٹ پر ویسٹ انڈیز کے عام سے فاسٹ بالرز کے سامنے ڈھیر ہوگئے تھے۔

شارجہ میں شکست کے بعد پاکستان کی بیٹنگ لائن کی کئی خامیاں نمایاں ہوگئی ہیں۔ خاص طور پر نئے گیند پر اوپنرز کا ردعمل اور پھر نمبر تین پر اسد شفیق کی موجودگی بہت سے سوالات اُٹھا رہی ہے۔ تکنیکی طور پر سمیع اسلم کو روایتی اوپنرز کی صف میں کھڑا نہیں کیا جاسکتا جبکہ بائیں ہاتھ سے بیٹنگ کرنے کے باوجود سمیع اسلم کی کتاب میں ہک اور پل شاٹس کی بہت زیادہ گنجائش نہیں ہے جو نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کی وکٹوں پر کسی بھی بائیں ہاتھ کے اوپنر کو آئیڈیل بنا سکتی ہیں۔ دوسری طرف اظہر علی تین سو رنز بنانے کے باوجود اگلی اننگز کا آغاز ایسے کرتے ہیں جیسے وہ نووارد ہوں جبکہ شرجیل خان شاید نیوزی لینڈ او رآسٹریلیا کی وکٹوں پر اننگز کا آغاز کرنے کیلئے مناسب نہ ہوں۔ اگر شرجیل کو ٹیسٹ کرکٹ کھلانی ہے تو پھر اس کا آغاز یو اے ای میں کروایا جاسکتا تھا مگر مشکل کنڈیشنز میں ٹیسٹ کرکٹ میں ناکامی کی صورت میں ون ڈے اور ٹی20فارمیٹس میں بھی شرجیل خان کے اعتماد کو ٹھیس پہنچے گی۔

خبریں یہ ہیں کہ نیوزی لینڈ کیخلاف پہلے ٹیسٹ میں بھی اسد شفیق نمبر تین پر کھیلیں گے جبکہ نمبر چھ پر بابر اعظم یا پھر محمد رضوان کو آزمایا جاسکتا ہے جو طویل عرصے سے ٹیسٹ ٹیم کا حصہ ہونے باوجود میدان میں اترنے میں کامیاب نہیں ہوسکے اور دوسری طرف تین ٹیسٹ میچز کے بعد محمد نواز کپتان اور کوچ کے دل سے اُتر گئے ہیں حالانکہ ویسٹ انڈیز کیخلاف سیریز سے قبل کپتان مصباح الحق نے بہت امیدوں کیساتھ محمد نواز کو ٹیسٹ ٹیم کا حصہ بنوایا تھا۔

نیوزی لینڈ نے اپنے فاسٹ بالرز پر بھروسہ کرتے ہوئے گرین ٹاپ وکٹ بنائی ہے کیونکہ ٹم ساؤتھی، ٹرینٹ بولٹ اور نیل ویگنر کی تکون اپنی کنڈیشنز میں کافی مہلک ثابت ہوئی ہے۔ دوسری جانب دیکھا جائے تو محمد عامر، وہاب ریاض اور سہیل خان کیساتھ پاکستان کا پیس اٹیک بھی کافی متوازن ہے لیکن یہ امر بہت زیادہ اہم ہے کہ کیویز پیسرز کے مقابلے میں پاکستانی فاسٹ بالرز ان کنڈیشنز کو کس طرح استعمال کرتے ہیں جبکہ ٹاس کا کردار بھی نہایت اہمیت کا حامل ہوگا کیونکہ اس وکٹ پر ٹاس جیتنے والی ٹیم پہلے بالنگ کروانے کا فیصلہ کرے گی۔

ہیگلے اوول کی وکٹ پہلے بیٹنگ کرنے والی ٹیم کی سازگار ثابت نہیں ہوگی جبکہ آخری اننگز میں لیگ اسپنر وبال جان بن سکتا ہے اس لیے کرائسٹ چرچ میں کھیلا جانے والا پہلا ٹیسٹ پاکستانی ٹیم کیلئے آسان ہرگز نہیں ہوگا جہاں گرین ٹاپ وکٹ گرین شرٹس کے بیٹسمینوں کا بھی امتحان لے گی لیکن یہاں پاکستانی ٹیم کو اُس غلطی سے بچنا ہوگا جو شارجہ میں کی گئی ہے کیونکہ دو ٹیسٹ میچ کی سیریز میں غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔