تاریخ کا بدقسمت ترین کھلاڑی

0 1,418

دنیا کے ہر کام کی طرح کرکٹ میں بھی کوئی بہت کامیاب رہتا ہے اور کوئی بری طرح ناکام۔ کرکٹ کی ڈیڑھ صدی پر مشتمل تاریخ میں ایسے بہت سے حیران کن، دلچسپ یا افسوسناک لمحات آئے ہیں جنھوں نے بعض کھلاڑیوں کی قسمت کا فیصلہ کیا ہے۔ ان لمحات نے کسی کھلاڑی کو شہرت کی بلندی پر پہنچایا تو کسی کے کیریئر کو گمنامی کی تاریکی میں دھکیل دیا۔تو اگر آپ سے پوچھا جائے کہ کرکٹ کی تاریخ کا خوش قسمت یا کامیاب ترین کھلاڑی کون ہے تو ہوسکتا ہے کہ آپ کچھ نام ضرور بتاسکیں لیکن اگر سوال یہ ہو کہ کرکٹ کی تاریخ کا بدقسمت ترین کھلاڑی کون ہے تو آپ یقیناً گڑبڑا جائیں گے۔آئیں، آپ کو بتاتے ہیں ایسے بدقسمت کھلاڑی کے بارے میں ہے جن کا ٹیسٹ کیریئر صرف آدھے گھنٹے پر محیط تھا۔ جی ہاں، صرف اور صرف آدھا گھنٹہ، جس کے بعد دوبارہ کبھی اپنے ملک کی جانب سے نہیں کھیل سکے۔ یہ ذکر ہے انگلستان کے اینڈریو لائیڈ کا، جنھیں عموماً اینڈی لائیڈ کہا جاتا ہے۔

واروِک شائر کاؤنٹی کی طرف سے کھیلنے والے اینڈی 6 فٹ طویل اوپننگ بلے باز تھے۔ مئی 1984ء میں جب انھیں ویسٹ انڈیز کے خلاف انٹرنیشنل کیریئر کے آغاز کا موقع ملا تو وہ 28 سال کے تھے۔ یہ ویسٹ انڈیز کے عروج کا زمانہ تھا۔ انگلستان کو ایک روزہ سیریز میں شکست ہوئی لیکن اینڈی کی اچھی کارکردگی پر انھیں ٹیسٹ کیپ مل گئی۔

اب اینڈی کا پہلا امتحان جون 1984ء میں ایجبسٹن کے مقام پر تھا۔ یہ اینڈی کا ہوم گراؤنڈ تھا، اور ان کے مدمقابل دنیا کے خطرناک ترین تیز گیند باز، میلکم مارش، جوئیل گارنر اور مائیکل ہولڈنگ تھے۔ اس بالنگ اٹیک کے سامنے تو بڑے بڑے بلے بازوں کے بلے کانپتے تھے، اینڈی کا تو ڈیبیو ٹیسٹ تھا۔ انگلش ٹیم کے کپتان ڈیوڈ گاور نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا اور یہ فیصلہ خاصا خطرناک ثابت ہوا۔ انگلستان صرف ایک رن پر اپنی پہلی وکٹ سے محروم ہوگیا۔ پھر آدھ گھنٹے بعد وہ لمحہ آگیا جس نے اینڈی کے کیریئر کا فیصلہ کردیا۔ وہ دس رنز پر کھیل رہے تھے کہ میلکم مارش کی اٹھتی ہوئی گیند سیدھی اُن کی کنپٹی پر جا لگی۔ گیند اتنی تیز تھی کہ ہیلمٹ پہن رکھنے کے باوجود اینڈی چکرا کر رہ گئے اور انھیں میدان سے جانا پڑا۔ ان کی بصارت بری طرح متاثر ہوئی تھی اور وہ ایک آنکھ سے ٹھیک طرح دیکھ بھی نہیں پا رہے تھے۔ انھیں اگلا ایک ہفتہ ہسپتال میں گزارنا پڑا۔ وہ پورے سیزن میں کوئی فرسٹ کلاس میچ تک نہ کھیل سکے۔ اس ایک گیند نے ان کے انٹرنیشنل کیریئر کا خاتمہ کردیا اور وہ دوبارہ انگلستان کی قومی کرکٹ ٹیم کا حصہ نہیں بن سکے۔ 28 سالہ زندگی کا خواب صرف ایک گیند نے چکنا چور کردیا۔

اینڈی لائیڈ اچھے بلے باز تھے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ اس حادثے کے بعد کاؤنٹی کرکٹ کھیلتے رہے اور 312 فرسٹ کلاس میچوں میں 17 ہزار سے زائد رنز بھی بنائے۔ لیکن اپنی دائیں آنکھ کی 35 فیصد بینائی چلے جانے کے باعث انھیں ایک سال تک کرکٹ سے دور رہنا پڑا۔ اینڈی خود اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں کہ اس باؤنسر کے بعد وہ پہلے جیسے بلے باز نہیں رہے۔ وہ کہتے ہیں کہ انھیں پچ کی صورتحال کا اندازہ ضرور تھا لیکن وہ پراعتماد تھے۔ مگر میلکم مارش کی گیند کا انھیں درست اندازہ نہ ہوسکا اور وہ ان کی دائیں آنکھ کے ساتھ کنپٹی پر جالگی۔ وہ بلے بازی جاری رکھنا چاہتے تھے لیکن جب انھوں نے ادھر ادھر دیکھا تو انھیں اندازہ ہوا کہ باؤنڈی لائن پر لگے سائن بورڈز واضح نظر نہیں آرہے تھے۔ یہ سخت دماغی چوٹ کی علامت تھی۔

ایک سال بعد 1985ء میں اسی میدان پر ایک کاؤنٹی میچ کے ذریعے کرکٹ میں ان کی واپسی ہوئی۔ وہ بعد ازاں 8 سال تک کرکٹ کھیلتے رہے اور واروِک شائر کاؤنٹی کے کپتان بھی اور کلب کے چیئرمین بھی۔ لیکن قومی ٹیم کے لیے کھیلنا بس خواب بن کر رہ گیا۔

Andy-Lloyd