گیند سے چھیڑ چھاڑ، "ہنگامہ ہے کیوں برپا؟"
فتح کا مزا ہمیشہ پرلطف ہوتا ہے، لیکن کبھی کبھی ایک 'بال' سارا مزا کرکرا کردیتا ہے جیسا کہ جنوبی افریقہ کے ساتھ ہوا۔ آسٹریلیا کو آسٹریلیا میں شکست دینے کی ہیٹ ٹرک کے بعد جو نشہ چڑھا تھا، وہ سب کپتان فف دو پلیسی کے پکڑے جانے سے اتر چکا ہے۔ قائم مقام کپتان کو دوسرے ٹیسٹ کے دوران گیند کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے کے پاداش میں مجرم قرار دیتے ہوئے جرمانہ عائد کیا گیا ہے۔ گو کہ ان کے پاس اس فیصلے کے خلاف اپیل کا حق بھی موجود ہے اور وہ تیسرا ٹیسٹ بھی کھیلنے جا رہے ہیں لیکن ابھی اس ہنگامے کی گرد ہی نہیں چھٹی تھی کہ بھارت کے کپتان ویراٹ کوہلی کی وڈیو منظر عام پر آ گئی۔ انہیں راجکوٹ ٹیسٹ کی ایک وڈیو میں بالکل وہی حرکت کرتے ہوئے دیکھا گیا، جس پر فف زیر عتاب آئے ہیں۔ بین الاقوامی کرکٹ کونسل نے قانون کی رو سے فف کو تو پکڑ لیا لیکن کوہلی کو چھوڑ دیا کیونکہ ان کا معاملہ مقررہ دنوں کے اندر گوش گزار نہیں کرایا گیا تھا۔
لیکن آخر گیند سے کون سی ایسی چھیڑ خانی کی گئی تھی جس پر اتنا ہنگامہ برپا ہو رہا ہے؟ اس کے لیے ہمیں کرکٹ کی گیند کے بارے میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ کرکٹ گیند پر چمڑے کے دو حصے باہم سلے ہوئے ہوتے ہیں۔ اس درمیانی سلائی کو "سیم" کہتے ہیں، جس کے ٹپے کے ذریعے باؤلر گیند کو اندر اور باہر کاٹتے ہی ہیں لیکن تیز گیند باز اسے ہوا میں بھی اپنی مرضی کے مطابق گھمانے کی کوشش کرتے ہیں جسے "سوئنگ" کہا جاتا ہے۔ پاکستان کے سابق گیند باز سرفراز نواز نے "ریورس سوئنگ" نامی کی ایک گیند ایجاد کی تھی جس کے لیے سلائی کے ایک طرف کے حصے کو قدرتی انداز میں خراب ہونے دیا جاتا ہے جبکہ دوسرے حصے کو چمکاتے رہنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس سے باؤلر اپنی رفتار کی بدولت ریورس سوئنگ حاصل کر سکتا ہے۔ وجہ سادہ سی ہے؟ ایک طرف ایک چمکیلی ہے اور دوسری کھردری تو لازمی گیند کے دونوں نصف حصوں کا وزن تھوڑا سا کم یا زیادہ ہوگا۔ جب یہ گیند پوری رفتار کے ساتھ ہوا میں جائے گی تو زیادہ وزن والے حصے کی طرف گھوم جائے گی۔
ابتداء میں تو دنیا بھر کے بلے بازوں کو سمجھ نہیں آئی کہ یہ ہو کیا رہا ہے؟ جب عمران خان اور ان کے بعد وسیم اکرم اور وقار یونس نے اس 'فن' کو عروج پر پہنچایا تو انہیں "بے ایمان" سمجھا جاتا تھا۔ 1992ء میں پاکستان کے دورۂ انگلستان میں تو اچھا خاصا ہنگامہ کھڑا ہوا تھا کہ جہاں دونوں "ڈبلیوز" نے انگلش بلے بازوں کو تگنی کا ناچ نچایا تھا۔ اس کے بعد دونوں کو "بال ٹیمپرنگ" یعنی گیند کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ الگ بات کہ بعد میں جب انگلستان اور دیگر ممالک کے گیند باز خود بھی یہ ہنر سیکھ گئے تو یہ "بے ایمانی" کے بجائے "آرٹ" بن گیا۔
بین الاقوامی کرکٹ کے قوانین کہتے ہیں کہ کھلاڑی گیند کی سلائی یا اس کی حالت کو خراب کرنے کے مجاز نہیں ہیں، چاہے وہ کسی بھی چیز سے کریں۔ ماضی میں بوتل کے ڈھکن، انگوٹھے کے تیز ناخن، جوتوں کی کیلوں، موٹی ریت اور نجانے کیا کیا استعمال ہوتا رہا ہے جو سب غیر قانونی ہے۔ اس لیے فیلڈنگ کرنے والی ٹیم گیند کے نصف حصے کو تو بالکل نہیں چھیڑتی جبکہ آدھے حصے پر خاصی محنت کی جاتی ہے تاکہ وہ جس حد تک ہو سکے چمکتا رہے۔ ریورس سوئنگ حاصل کرنے کا یہی طریقہ قانونی ہے اور اس کے لیے پسینہ اور تھوک کے علاوہ کچھ استعمال نہیں کیا جاتا۔
گیند کی سلائی کو تبدیل کرنے کی کوشش کرنا، اسے ادھیڑنا یا خراب کرنا بھی "جرم" ہے اور اب سب سے اہم معاملہ، کسی بھی دوسرے مواد کا گیند پر استعمال۔ جیسا کہ ویسلین، ہونٹوں یا چہرے پر لگانے والی کریم، بالوں کا جیل، چیونگ گم یا پھر کوئی بھی ایسی چیز جس سے گیند سے سوئنگ حاصل کرنے میں مدد ملے۔
وسیم اکرم اور وقار یونس پر 1992ء میں الزام لگانے والے تو ثابت نہ کر سکے لیکن دو سال بعد انہی کے کپتان مائیکل ایتھرٹن کیمرے کی آنکھ میں آ گئے۔ وہ جیب سے ریت نکال کر گیند پر رگڑتے ہوئے پکڑے گئے۔ یہی نہیں بلکہ 2001ء میں "عظیم" سچن تنڈولکر بھی گیند کی سلائی ادھیڑتے ہوئے پکڑے گئے۔ ان کے ہم وطن ایک اور "معزز" کھلاڑی راہول ڈریوڈ بھی ایک بار گیند پر کچھ ملتے ہوئے دھر لیے گئے تھے۔ پھر 2006ء میں اوول کا بدنام زمانہ تنازع پیش آیا کہ جس کی وجہ سے پاکستان اور انگلستان کا ٹیسٹ ہی مکمل نہیں ہو سکا۔ 2010ء میں پاکستان کے کپتان شاہد آفریدی گیند کو چباتے ہوئے پکڑے گئے تھے اور انہیں دو میچز کی پابندی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
اب ان سب کی جگہ جنوبی افریقہ لے رہا ہے۔ 2013ء میں پاکستان کے خلاف ایک ٹیسٹ میں فف دو پلیسی ہی گیند کو اپنے ٹراؤزر کی زپ پر رگڑتے ہوئے پکڑے گئے تھے، جس پر امپائروں نے پاکستان کو 5 پنالٹی رنز بھی دیے، گیند بھی تبدیل کی اور فف پر 50 فیصد میچ فیس کا جرمانہ بھی عائد کیا۔ اگلے ہی سال جنوبی افریقہ کے ویرنن فلینڈر گیند کے ساتھ چھیڑچھاڑ پر پکڑے گئے اور اب اسی جنوبی افریقہ کے فف دوبارہ بال ٹیمپرنگ تنازع میں پھنسے ہیں۔
کرکٹ کو "شرفاء کا کھیل" کہا جاتا ہے لیکن اب اس میں وہ تمام بدمعاشیاں در آئی ہیں، جو دیگر تمام کھیلوں کا خاصہ ہیں۔ یہاں تک کہ کرکٹ کے بڑے معتبر نام بھی گیند سے چھیڑ چھاڑ جیسی معیوب حرکت میں ملوث نظر آئے ہیں جیسا کہ چند کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔ گو کہ کیمرے کی درجنوں آنکھوں کی وجہ سے اب گیند کے ساتھ "ہوشیاری" دکھانا اتنا آسان نہیں رہا لیکن جس طرح ان معمولی حرکتوں سے میچز بلکہ سیریز کے نتائج تبدیل ہوئے ہیں اور جیسی معمولی سزاؤں پر کھلاڑیوں کو چھوڑا گیا ہے، اس پر دو رائے بنتی ہیں۔ یا تو ایک حد تک ٹیمپرنگ کی اجازت ہو یا پھر یہ معمولی جرمانوں جیسی سزائیں نہیں دینی چاہئیں۔ اگر یہ "جرم" ہے تو اس کی سزا کڑی ہونی چاہیے۔ دو سے تین میچز کی پابندی اور دوبارہ ارتکاب پر مزید بڑی سزا ہی سے اسے "جرم" بنا سکتی ہے، ورنہ یہ ایسے ہی مذاق بنتا رہے گا۔ ٹیمیں معمولی جرمانوں کے عوض ایسی حرکتیں کریں گی اور اہم مقابلے اور سیریز جیتتی رہیں گی۔