’’چار کا ٹولہ‘‘ رینکنگ میں ’’نمبر4‘‘ کا ذمہ دار؟

0 1,047

نیوزی لینڈ میں پاکستانی ٹیم کو سیریز کے دونوں ٹیسٹ میچز میں شکست کا سامنا کرنا پڑا جو کیویز کیخلاف تاریخ میں پاکستان کی بدترین کارکردگی ہے کیونکہ 31برس کے بعد پاکستان کو نیوزی لینڈ میں ہار نصیب ہوئی ہے جبکہ یہ پہلا موقع ہے کہ نیوزی لینڈ نے پاکستان کو وائٹ واش کیا ہو۔ اس سیریز میں بیٹسمینوں کی کارکردگی بدترین رہی جبکہ بالرز کے پاس بھی ایسا کچھ نہیں ہے کہ وہ پاکستان کیلئے جیت کا سامان کرسکیں۔ نیوزی لینڈ میں مسلسل دو ٹیسٹ ہارنے سے قبل پاکستانی ٹیم کو شارجہ میں ویسٹ انڈیز کے ہاتھوں بھی شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا اور ان مسلسل تین شکستوں نے پاکستانی ٹیم کو آئی سی سی رینکنگ میں چوتھے نمبر پر پہنچا دیا ہے جو چند ہفتے قبل سرفہرست پوزیشن پر فائز ہوئی تھی اور کپتان مصباح الحق نے نہایت شان کیساتھ ٹاپ پوزیشن کا ’’گرز‘‘اپنے ہاتھوں میں اُٹھایا تھا۔

پاکستانی ٹیسٹ ٹیم کی کارکردگی بھی اب روبہ زوال ہے کیونکہ تین مسلسل شکستوں اور بدترین انفرادی کارکردگی پر کوئی عذر پیش نہیں کیا جاسکتا کیونکہ پچھلے پانچ برسوں میں پاکستانی ٹیم نے اتنا خراب کھیل پیش نہیں کیا جتنا کہ پانچ ہفتوں میں کیا ہے مگر ایسی غیر معیاری کارکردگی کے باوجود سلیکشن کمیٹی کے ’’اطمینان‘‘ پر داد دینے کو جی چاہتا ہے جنہوں نے آخری دن کا کھیل دیکھنے سے قبل دورہ آسٹریلیا کیلئے ٹیسٹ ٹیم کا اعلان کردیا اور دلچسپ بات یہ ہے کہ نیوزی لینڈ میں ناکامی کا شکار ہونے والے تمام کھلاڑی اس اسکواڈ کا حصہ ہیں!

نیوزی لینڈ میں کھیلی گئی چار اننگز میں صرف بابر اعظم نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیااور یا پھر آخری اننگز میں سمیع اسلم نے کچھ مہم جوئی دکھائی جبکہ باقی بیٹسمینوں کی پرفارمنس سب کے سامنے ہے۔ اسی طرح اگر بالنگ کی بات کریں تو 40کی اوسط رکھنے والے نہایت شان و شوکت کیساتھ ٹیسٹ ٹیم کا حصہ بنے ہوئے ہیں لیکن سلیکشن کمیٹی کو ان کی ناکامیاں اور اوسط درجے کی کارکردگی دکھائی نہیں دے رہی جبکہ کراچی میں کئی روز تک فرسٹ کلاس کرکٹ کا بغور ’’مشاہدہ‘‘کرنے والے سلیکٹرز کو ڈومیسٹک کرکٹ میں کوئی بھی ایسا ’’ہیرا‘‘ دکھائی نہیں دیا جسے وہ عالمی کرکٹ کے اُفق پر چمکنے کے قابل سکیں۔چار رکنی مجلس انتخاب نے انہی کھلاڑیوں کو دورہ آسٹریلیا کیلئے بھی منتخب کرلیا ہے جو نیوزی لینڈ میں ناکامی کا شکار ہوچکے ہیں۔

انضمام الحق یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ بیٹسمین کو بننے کیلئے چند فرسٹ کلاس سیزن کھیلنا ضروری ہوتا ہے اور خود انضمام بھی سات فرسٹ کلاس سیزن کھیلنے کے بعد ٹیسٹ کیپ کے حقدار ٹھہرے تھے مگر جس طرح کپتان کی حیثیت سے انضمام الحق نے مصباح الحق، فیصل اقبال اورحسن رضا جیسے تجربہ کار بیٹسمینوں کی ٹیسٹ ٹیم میں واپسی کی راہ ہموار نہیں کی تھی بالکل اسی طرح آج وہ کامران اکمل،فواد عالم یا آصف ذاکر جیسے بیٹسمینوں کے تجربے سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش نہیں کررہے۔ اس وقت ٹیم میں ایسے مڈل آرڈر بیٹسمینوں کو شامل کرنے کی ضرورت ہے جو آگے بڑھ کر مصباح یا یونس کی جگہ لے سکیں جیسا کہ ماضی میں انضمام الحق کی ریٹائرمنٹ کے بعد مصباح الحق کا تجربہ مڈل آرڈر کی مضبوطی بن گیا تھا مگر چار رکنی سلیکشن کمیٹی مسلسل ایسے تجربہ کار کھلاڑیوں کی حوصلہ شکنی کررہی ہے۔

کامران اکمل، عثمان صلاح الدین، فواد عالم،آصف ذاکر، محمد عباس، تابش خان، صدف حسین ایسے کھلاڑی ہیں جنہوں نے حالیہ فرسٹ کلاس سیزن میں بہت عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے اور گزشتہ سیزنوں میں بھی اُن کی کارکردگی کا معیار بہتر رہا ہے مگر سلیکشن کمیٹی کی میٹنگ میں ان میں سے کسی کا نام بھی زیر غور نہیں سمجھا گیا بلکہ حیران کن طور پر 21سالہ بیٹسمین جاہد علی کو دورہ آسٹریلیا کیلئے ٹیسٹ اسکواڈ کا حصہ بنانے پر غور کیا جارہا تھا جو 41فرسٹ کلاس اننگز میں صرف ایک سنچری کیساتھ 30کی اوسط کا مالک ہے مگر پاکستان اے کی طرف سے انگلینڈ لائنز کیخلاف رواں سال ون ڈے میچ میں ایک سنچری نے جاہد علی کو سلیکٹرز کی آنکھوں کا تارا بنا دیا۔ جاہد علی یا کسی بھی دوسرے نوجوان بیٹسمین کو حسیب حمید بنا کر پیش نہیں کیا جاسکتا کیونکہ انگلش اوپنر صرف کم عمر یا باصلاحیت نہیں بلکہ فرسٹ کلاس کرکٹ میں رنز کے ڈھیر لگانے کے بعد حسیب حمید نے خود کو ٹیسٹ کرکٹ کا اہل ثابت کیا ہے جس کا ثبوت اس نے بھارت میں بخوبی دیا۔نوجوان کھلاڑیوں کو منتخب کرنے میں کوئی برائی نہیں لیکن شرط صلاحیت اور پرفارمنس ہی ہونی چاہیے۔ بدقسمتی سے پاکستانی نوجوان بیٹسمین فرسٹ کلاس کرکٹ میں اوسط کے اعتبار سے کہیں پیچھے ہیں۔اُن کھلاڑیوں کو کیا قصور ہے جو گزشتہ چار پانچ سیزنوں سے مسلسل پرفارم کررہے ہیں مگر بائیس تئیس سال کے نوجوان نہیں بلکہ تیس بتیس سال کے ’’بوڑھے‘‘ ہیں۔

سلیکشن کمیٹی کو سمجھنا چاہیے کہ ٹیسٹ ٹیم کی کارکردگی میں مستقل مزاجی لانے کیلئے مستقل مزاج کھلاڑیوں کی شمولیت ضروری ہے۔ اگر ’’چار کا ٹولہ‘‘ یونہی اپنی من مانیاں کرتا رہا تو ممکن ہے کہ پاکستان کی رینکنگ سے ’’نمبر چار‘‘ سے بھی نیچے چلی جائے!