تین روزہ میچ میں’’تینوں‘‘شانے چت!

0 1,064

پاکستان کرکٹ ٹیم کے دورہ آسٹریلیا کا آغاز ہوچکا ہے جس کے پہلے ہی میچ میں پاکستانی بیٹنگ نے ایک مرتبہ پھر دھوکہ دے دیا۔ پنک بال سے کھیلے جانے والے تین روزہ ڈے اینڈ نائٹ میچ میں پاکستانی ٹیم کا مقابلہ کرکٹ آسٹریلیا کی ٹیم سے ہے جس میں کوئی نامور کھلاڑی شامل نہیں ہے مگر اس میچ میں بھی پاکستانی بیٹسمین خاطر خواہ کارکردگی دکھانے میں ناکام رہے ہیں جبکہ کپتان مصباح الحق کی واپسی بھی فرق ڈالنے میں ناکام رہی ہے۔

پاکستانی ٹیم اپنی اننگز میں 208رنز بنا کر آؤٹ ہوئی جس میں یونس خان 54رنز کیساتھ نمایاں رہے جبکہ سرفراز احمد نے 39رنز بنائے۔ دوسری اننگز میں بھی پاکستان کے پانچ بیٹسمین محض124رنز پر پویلین لوٹ چکے ہیں جس میں کپتان مصباح الحق کا ’’ڈک‘‘ بھی شامل ہے۔ پاکستانی بیٹسمینوں نے کم و بیش وہی کارکردگی دکھائی ہے جس کا مظاہرہ انہوں نے نیوزی لینڈ کیخلاف ٹیسٹ سیریز میں کیا تھا مگر کرکٹ آسٹریلیا کی نوجوان ٹیم میں کوئی بھی تجربہ کار کھلاڑی شامل نہیں ہے اور پاکستانی اننگز میں بالنگ کرنے والے چھ آسٹریلین بالرز کا مجموعی تجربہ صرف 15فرسٹ کلاس میچز پر مشتمل ہے مگر اس کے باوجود پاکستانی بیٹسمین آسٹریلین کنڈیشنز میں ناتجربہ کار بالرز کے سامنے بے بسی کی تصویر بنے ہوئے دکھائی دیے۔البتہ پاکستانی بالرز نے عمدہ بالنگ کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہوم ٹیم کو صرف 114رنز پر ڈھیر کیا جس میں محمد عامر ، راحت علی اور وہاب ریاض نے تین تین وکٹیں اپنے نام کیں۔

بیٹنگ میں پاکستانی ٹیم انہی مسائل کا شکار دکھائی دے رہی ہے جس کا سامنا نیوزی لینڈ میں کرنا پڑا تھا اور یہی وجہ ہے کہ کرکٹ آسٹریلیا کے نوجوان فاسٹ بالرز بھی پاکستانی بیٹسمینوں کیلئے دردسر بن گئے ہیں۔ پاکستان نے اپنی پہلی اننگز میں 208رنز 85اوورز میں اسکور کیے ہیں جس کا مطلب ہے کہ گرین شرٹس کے بیٹسمین اوسط درجے کے بالرز کے سامنے فی اوور ڈھائی رنز بھی نہیں بنا سکے اور اگلے ہفتے انہی بیٹسمینوں نے ٹیسٹ سیریز میں آسٹریلیا کے تجربہ کار بالرز کا سامنا کرنا ہے جو اپنی کنڈیشنز میں کبھی بھی آسان حریف ثابت نہیں ہوتے۔ اگر پاکستانی بیٹسمینوں کو پہلی اننگز میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے تو انہیں دوسری باری میں سنبھل جانا چاہیے تھا مگر دوسری اننگز میں بھی ناتجربہ کار بالرز کی سوئنگ بالنگ پاکستانی بیٹسمینوں کیلئے درد سر ثابت ہوئی اور 5وکٹوں پر 124رنز بنانے کیلئے گرین شرٹس نے 51 اوورز کھیلے۔مجموعی طور پر دیکھا جائے تو تادم تحریر 15وکٹیں گنوانے کیلئے پاکستانی بیٹسمینوں نے صرف 332رنز بنائے ہیں جس کا مطلب ہے کہ اس تین روزہ میچ میں فی وکٹ پاکستان کا اوسط اسکور 22رہا جبکہ ان 332رنز کیلئے 136اوورز کا استعمال کیا گیا جس نے پاکستان کا رن ریٹ 2.44کردیا۔

یہ اعدادوشمار پاکستانی بیٹنگ لائن کی بھیانک داستان بیان کرنے کیلئے کافی ہیں اور ٹیسٹ سیریزسے قبل بیٹنگ لائن کی ایسی کارکردگی تشویش ناک ہے کیونکہ تین ٹیسٹ میچز کی سیریز میں پاکستانی بیٹسمینوں کو اس بالنگ سے کہیں زیادہ تجربہ کار اور خطرناک بالرز کا سامنا کرنا پڑے گا جس کا سامنا انہوں نے تین روزہ میچ میں کیا ہے۔ اگر پاکستانی بیٹسمینوں کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو اکثر بیٹسمین وکٹوں کے عقب میں یا وکٹ کیپر کے ہاتھوں کیچ آؤٹ ہوئے ہیں یا پھر انہوں نے سلپ یا گلی میں کیچ تھمائے ہیں۔ جس کا واضح مطلب ہے کہ سوئنگ ہوتی ہوئی گیندوں پر پاکستانی بیٹسمین مشکلات کا شکار ہورہے ہیں۔

42سالہ پاکستانی کپتان مصباح الحق پہلی مرتبہ آسٹریلیا میں ٹیسٹ سیریز کھیلنے کیلئے گئے ہیں جبکہ دس سال کے بعد یہ اُن کا دوسرا دورہ آسٹریلیا ہے۔ 2006ء میں پاکستان اے کے کپتان کی حیثیت سے آسٹریلیا جانے والے مصباح الحق تین روزہ میچ میں سب سے زیادہ بے بس دکھائی دیے ہیں جو پہلی اننگز میں وکٹوں کے پیچھے کیچ ہوئے جبکہ دوسری باری میں کپتان 29بالز تک جدوجہد کرنے کے باوجود اپنا کھاتہ کھولنے سے قبل بولڈ ہوگئے۔مصباح الحق اگر بیٹسمین کی حیثیت سے کامیابی سے دور رہیں گے تو پھر کپتان کی حیثیت سے بھی انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

پاکستانی ٹیم گزشتہ دو دہائیوں میں آسٹریلیا میں کھیلتے ہوئے ایک ٹیسٹ بھی نہیں جیت سکی حالانکہ ماضی میں پاکستانی ٹیم کو کئی سپر اسٹارز کا ساتھ حاصل تھا۔ اگر ماضی کے برعکس دیکھا جائے تو اس مرتبہ آسٹریلیا کی ٹیم زیادہ مضبوط نہیں ہے اور اس کیساتھ ساتھ جنوبی افریقہ کے ہاتھوں ہوم سیریز کی شکست کے بعد کینگروز کا مورال بھی گرا ہوا ہے اس لیے یہ امید کی جارہی تھی کہ پاکستانی ٹیم اس مرتبہ آسٹریلیا میں تاریخ بدلنے میں کامیاب ہوجائے گی لیکن تین روزہ میچ میں پاکستانی بیٹنگ لائن جس طرح ’’تینوں‘‘ شانے چت ہوئی ہے اسے دیکھتے ہوئے جیت کی امید نہیں رکھی جاسکتی ۔پاکستانی بیٹسمینوں کو جلد از جلد سوئنگ بالنگ پر ہونے والی مشکلات پر قابو پانا ہوگا کیونکہ جب تک بیٹسمین رنز نہیں کریں گے اُس وقت تک بالرز بھی کچھ نہیں کرسکیں گے۔

Sohail-Khan