گرین شرٹس کی مثبت اپروچ تاریخ بدل سکتی ہے!

0 1,097

گزشتہ 33برسوں کے دوران آسٹریلیا میں کھیلتے ہوئے کسی بھی پاکستانی بیٹسمین نے 150پلس اننگز نہیں کھیلی۔ ان تین عشروں میں جاوید میانداد، سلیم ملک،انضمام الحق، محمد یوسف اور یونس خان جیسے بیٹسمین بھی وہ کارنامہ انجام نہیں دے سکے جو اظہر علی کی دسترس میں ہے اور میلبورن ٹیسٹ کے تیسرے دن مزید گیارہ دن اظہر علی کو اس تاریخی میدان پر 150پلس اننگز کا مالک بنا دیں گے۔کیلنڈر ایئر میں ہزار رنز کا کارنامہ سر انجام دینے والے اظہر علی یہ انفرادی ریکارڈ اپنے نام کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں اور 150کا سنگ میل عبور کرنے کے بعد ڈبل سنچری بھی اظہر علی کا مقدر بنے گی یا نہیں ...ان سب سوالوں کا جواب ابھی نہیں دیا جاسکتا لیکن میلبورن میں دو دن کے کھیل میں پاکستان نے اپنی برتری ثابت کردی ہے جو اس مثبت کرکٹ کا نتیجہ ہے جس کا آغاز برسبین ٹیسٹ کی چوتھی اننگز میں اس وقت ہوا اسد شفیق ٹیل اینڈرز کی مدد سے وکٹ پر ڈٹ گیا تھا۔

میلبورن ٹیسٹ کے دو دن میں 101.2اوورز کا کھیل ہوا ہے اور اس میں پاکستانی ٹیم نے چھ وکٹوں پر310رنز بنائے ہیں ۔تین رنز فی اوور کے حساب سے کھیلتے ہوئے آسٹریلین بالرز کو زچ کردینا کسی کارنامے سے کم نہیں ہے کیونکہ برسبین ٹیسٹ کے چوتھے دن سے لے کر میلبورن کے دو دنوں تپ پاکستان کا پلڑا بھاری رہا ہے اور اگر تیسرے دن بھی پاکستانی بیٹسمینوں نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا تو پھر آسٹریلین ٹیم کیلئے میچ میں واپسی کرنا آسان نہ ہوگا۔ابر آلود موسم میں ٹاس جیت کر مصباح الحق نے پہلے بیٹنگ کرنے کا مثبت فیصلہ کیا تاکہ چوتھی اننگز میں آسٹریلین بیٹسمینوں کو یاسر شاہ کی لیگ اسپن بالنگ سے پھنسایا جاسکے۔میلبورن ٹیسٹ کا آغاز بھی پاکستان کیلئے شاندار نہیں تھا جب بارہویں اوور میں 18کے مجموعی اسکور پر سمیع اسلم پویلین روانہ ہوگیا جبکہ بابر اعظم اور یونس خان بھی 20پلس اننگز کو نصف سنچریوں میں نہ بدل سکے اور پھر 125کے اسکور پر کپتان مصباح الحق کا ایک مرتبہ پھر ناکام ہوجانا بھی پاکستان کی مشکلات میں اضافہ کرنے کا سبب تھا لیکن یہاں سے اس فائٹ بیک کا آغاز ہوا جس نے پاکستان کی میچ میں واپسی کروادی۔ دوسرے دن اظہر اور اسد کے درمیان ہونے والی سنچری پارٹنرشپ نے پاکستان کو مشکلات سے نکال دیا اور محمد عامر کیساتھ اظہر علی نے ناقابل شکست 42رنز جوڑ کر اسکور تین سو پلس کردیا ہے ۔

پاکستانی بیٹسمین ماضی قریب میں سست روی سے بیٹنگ کرنے کے سبب بھی تنقید کی زد میں رہے ہیں لیکن میلبورن ٹیسٹ میں فی اوور تین رنز سے کھیلتے ہوئے پاکستانی بیٹسمینوں نے مثبت اپروچ کا ثبوت دیا ہے ۔اظہر علی (139* ) اور محمد عامر(28*) تیسرے دن کا آغازکریں گے اور اگر ساتویں وکٹ پر سنچری شراکت قائم ہوگئی تو پھر پاکستانی ٹیم کا 400پلس مجموعہ آسٹریلیا کے بیٹسمینوں کیلئے مشکلات کا سبب بن جائے گا۔اس کیساتھ ساتھ آخری دن اگر آسٹریلیا کو میچز بچانے کی ضرورت پڑی تو پھر یاسر شاہ کی لیگ اسپن کا سامنا کرنا بھی کینگروز کیلئے آسان نہیں ہوگا۔یہ پہلے دو دن ابر آلود موسم اور بارش سے متاثرہ وکٹ پر پاکستانی ٹیم کی مثبت بیٹنگ کا نتیجہ ہے جس نے کینگروز کو بیک فٹ پر دھکیل دیا ہے۔

میلبورن ٹیسٹ میں اظہر علی کی جرات مندانہ اننگز ہو یا اسد شفیق کی عمدہ ففٹی ہو یا پھر محمد عامر کا کریز پر جم جانا ہو ...اس کا سبب وہ مثبت سوچ اور اپروچ کا ہے جسے پاکستانی ٹیم نے اپنا لیا ہے اور اب اس کا اثر میدان میں دکھائی دینے لگا ہے ۔ نیوزی لینڈ میں پاکستانی ٹیم انہی کھلاڑیوں پر مشتمل تھی جو آسٹریلیا میں کھیل رہے ہیں مگر فرق صرف اپروچ کا تھا کہ منفی سوچ کیساتھ کھیلنے والی پاکستانی ٹیم نیوزی لینڈ کے ہاتھوں آسانی سے چت ہوگئی جبکہ نیوزی لینڈ سے کئی گنا مضبوط آسٹریلین ٹیم اپنے گھر میں پاکستان کیخلاف مشکلات کا شکار ہے اور پہلا ٹیسٹ جیتنے کے باوجود کینگروز اپنے ہی سابق کھلاڑیوں اور میڈیا کی توپوں کی زد میں ہے۔

ماضی میں پاکستانی ٹیم نے بڑے بڑے ناموں کیساتھ آسٹریلیا کا دورہ کیا ہے لیکن پاکستان کو آسٹریلیا میں آخری دس ٹیسٹ میچز میں شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے حالانکہ گزشتہ تین ٹورز پر آسٹریلیا جانے والی پاکستانی ٹیمیں موجودہ پاکستانی ٹیم سے زیادہ مضبوط تھیں۔ پاکستانی ٹیم نے آسٹریلیا میں کھیلنے کا ہنر سیکھ لیا ہے اور گزشتہ دو عشروں کے دوران پاکستانی ٹیم نے آسٹریلیا میں ایسی ہمت نہیں دکھائی جس کا مظاہرہ حالیہ دورے پر پاکستانی ٹیم کرر ہی ہے۔

یہ بات کہنا قبل از وقت ہے کہ گرین شرٹس میلبورن میں 1981ء کی تاریخ دہرا دے گی جب پاکستان نے پہلی اننگز میں پانچ سو رنز بنانے کے بعد میچ میں اقبال قاسم کی سات وکٹوں کی بدولت اننگز کے مارجن سے کامیابی حاصل کی لیکن یہ بات پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ آسٹریلیا میں ٹیسٹ سیریز کے پہلے سات دنوں میں پاکستانی ٹیم نے جو پرفارمنس دکھائی ہے وہ مدتوں یاد رہے گی اور شاید یہی گرین شرٹس کی کامیابی ہے جو آسٹریلیا میں تاریخ بدل سکتی ہے!