چار چاپلوس اور انضی کی دُکان!

0 1,150

کچھ دن پہلے لکھا تھا کہ ماضی میں میدان میں کارکردگی دکھانے کیساتھ ساتھ میدان سے باہر سلیکٹرز کو ’’سلام‘‘ کرنا بھی لازمی تھا تاکہ ٹیم میں واپسی ہوسکے جبکہ موجودہ دور میں کھلاڑی سوشل میڈیا پر اپنے حق میں ’’مہم‘‘ چلا کر بورڈ اور سلیکشن کمیٹی کا دل نرم کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ایسے خوشامدی اور چاپلوس کھلاڑی ماضی میں بھی بہت فراوانی سے پائے جاتے تھے اور آج بھی ان میں کمی نہیں آئی۔سب سے زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ ایسے کھلاڑی ڈومیسٹک کرکٹ میں پرفارم کرنے کے بعد اپنی پرفارمنس اور اہلیت پر بھروسہ نہیں کرتے بلکہ وہ سلیکٹرز کے قدموں میں بیٹھ کر واپسی کی بھیک مانگتے ہیں جو قطعی طور پر انہیں زیب نہیں دیتا۔

کرکٹ کے میدانوں میں کامیابی کے جھنڈے گاڑنے والے عظیم بیٹسمین اور موجودہ چیف سلیکٹر انضمام الحق نے لاہور میں کپڑوں کے برانڈ لانچ کیا ہے جس کی افتتاحی تقریب میں مختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والے افراد کے علاوہ چار ٹیسٹ کرکٹرز بھی نمایاں تھے۔ یہ چاروں کرکٹرز ایسے ہیں جو اس وقت قومی ٹیم سے باہر ہیں اور واپسی کیلئے اپنی پرفارمنس پر بھروسہ کرنے کی بجائے انضی کی ’’دکان‘‘ پر پہنچ گئے کیونکہ انہیں امید تھی کہ چیف سلیکٹر اپنے آؤٹ لیٹ کی افتتاحی تقریب میں ان کھلاڑیوں کی شرکت کو ضرور سراہیں گے مگر انضی اتنے سادہ نہیں رہے جتنا کہ وہ اپنے کھیل کے دنوں میں ہوتے تھے۔

سلمان بٹ نے اپنے کیرئیر کا آغاز انضمام الحق کی کپتانی میں کیا جوکھبے اوپنر کی صلاحیتوں کے معترف بھی ہیں۔ کرکٹ میں واپسی کے بعد سلمان بٹ نے اپنی عمدہ قائدانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف واپڈا کو پہلی مرتبہ قائد اعظم ٹرافی کا چمپئن بنوایا بلکہ انفرادی طور پر اس ٹورنامنٹ کے دس میچز میں چار سنچریوں کی مدد سے 741رنز اسکور کیے۔ ون ڈے میچز میں بھی اچھی کارکردگی دکھانے کیساتھ ساتھ آٹھ ٹی20میچزمیں بھی چار نصف سنچریاں اسکور کیں۔ دوسری طرف پاکستانی ٹیم میں اس وقت تجربہ کار اوپنر کی کمی شدت سے محسوس کی جارہی ہے جو ٹیم کو مستحکم آغاز فراہم کرسکے۔

کامران اکمل نے اس سیزن میں فرسٹ کلاس کرکٹ میں ہزار سے زائد رنز بنا کر خود کو ملک کا ٹاپ بیٹسمین ثابت کیا جبکہ وکٹوں کے عقب میں بھی وکٹ کیپر بیٹسمین کی مہارت میں کمی نہیں آئی ۔احمد شہزاد نے اس سیزن میں ون ڈے میچز میں بہت زیادہ رنز کیے ہیں جبکہ محمد عرفان بھی آسٹریلیا کے ٹور سے واپسی کے بعد دوبارہ ٹیم میں جگہ پانے کیلئے چیف سلیکٹر کا قرب چاہتے ہیں۔

inzamam-pakistan

ایک طرف یہ چاروں کھلاڑی چیف سلیکٹرکا دل جیتنے کیلئے اُن کے برانڈ کی افتتاحی تقریب میں پہنچے تو دوسری طرف مجلس انتخاب کے سربراہ نے سلمان بٹ اور کامران اکمل کی واپسی کو مزید مشکل بنا دیا ہے جن کا کہنا ہے کہ سلمان بٹ کو انٹرنیشنل کرکٹ میں واپسی کیلئے ڈومیسٹک کرکٹ کا پورا سیزن کھیلنا چاہیے حالانکہ انہیں شاید یہ نہیں پتہ کہ بائیں ہاتھ کا اوپنر ایک سے زائد سیزن کھیل چکا ہے اور اس کی انفرادی کارکردگی اور کپتانی کی صلاحیتیں بھی سب کے سامنے ہیں۔ اسی طرح کامران اکمل کی واپسی کی راہ میں حائل دیواریں سرفراز احمد اور محمد رضوان ہیں اس لیے کامران اکمل ڈومیسٹک کرکٹ میں کچھ بھی کرلیں انہیں قومی ٹیم میں منتخب نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ٹیم میں سرفراز موجود ہیں۔ اس حوالے سے انضمام نے معین خان اور راشد لطیف کی مثال دی کہ دونوں میں سے کوئی ایک وکٹ کیپر ہی کھیلتا تھا لیکن انضمام شاید بھول رہے ہیں کہ متعدد ٹورز پر یہ دونوں وکٹ کیپرز موجود ہوتے تھے تاکہ ٹیم کے نمبر ون وکٹ کیپر پر اچھی کارکردگی دکھانے کا دباؤ موجود رہے اور جب نمبر ون وکٹ کیپر کی کارکردگی خراب ہوتو اس کی جگہ لینے کیلئے دوسرا وکٹ کیپر موجود ہومگر موجودہ ٹیم میں سرفراز کو مکمل موقع فراہم کرنے کیلئے ’’بے ضرر‘‘ رضوان کو سیکنڈ وکٹ کیپر بنایا ہوا ہے جبکہ کامران اکمل جیسے پرفارمر ٹیم سے دور ہیں۔

انضمام نے ان دونوں کھلاڑیوں کو ٹیم سے دور رکھنے پر بھونڈے جواز تو پیش کردیے ہیں لیکن احمد شہزاد کے معاملے پر انہوں نے چپ سادھ رکھی ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ پریس کانفرنس میں کسی صحافی نے بھی انضمام سے احمد شہزاد کی واپسی کے متعلق کوئی سوال نہیں پوچھا کیونکہ ’’سیلفی کنگ‘‘ دورہ ویسٹ انڈیز کیلئے اپنی واپسی کو ممکن بنانے کیلئے ’’بیک ڈور‘‘ رابطے شروع کرچکا ہے اور اسے پورا یقین ہے کہ پی سی بی کے ’’بڑوں‘‘ کی خوشامد اور چاپلوسی کرکے وہ دوبارہ پاکستانی ٹیم میں جگہ حاصل کرلے گا اور اس کام کیلئے چند سابق کرکٹرز بھی ’’اوور ریٹڈ‘‘ بیٹسمین کیلئے مہم چلا رہے ہیں۔

کھلاڑیوں کا کسی تقریب میں جانا معیوب بات نہیں ہے لیکن اگر ایسی تقریب میں شرکت کا مقصد قومی ٹیم میں دوبارہ جگہ حاصل کرنے کیلئے چیف سلیکٹر کی چاپلوسی اور خوشامد کرنا ہوتو پھر یقینا یہ معیوب بلکہ مایوس کن عمل ہے۔کامران اکمل اور سلمان بٹ کے ستارے اس وقت گردش میں ہیں اور کچھ لوگ نہیں چاہتے کہ ان دونوں کھلاڑیوں کی واپسی ہو شاید اسی لیے ان دونوں کو خوشامد کا سہارا لینا پڑا جبکہ دوسری طرف احمد شہزاد نے اپنا ’’انتظام‘‘ پورا کیا ہوا ہے جس پر اب اس نے انضی بابا کی چاپلوسی اور خوشامد کا تڑکا بھی لگا لیا ہے!