اب کیا ہوگا؟؟؟ آئی سی سی کے فیصلے کے بعد پی سی بی میں کھلبلی
بین الاقوامی کرکٹ کونسل (آئی سی سی) نے پاکستان کرکٹ بورڈ سمیت کئی دیگر بورڈز کی رائے کے برخلاف سالانہ کانفرنس کے بعد ممبر ممالک کے بورڈز میں سیاسی بنیادوں پر تقرریوں پر پابندی کا اعلان کیا تھا، یہ اعجازبٹ کے پی سی بی سمیت کئی ممالک کے لیے حیران کن تھا ، تاہم وقتی پریشانی سے اس وقت کچھ چھٹکارا ملا جب آئی سی سی نے جون 2012ء تک فیصلے کے اطلاق اور پھر جون 2013ء تک ڈیڈلائن مقرر کر دی اور اس مقررہ وقت کے دوران مقررہ تبدیلیاں نہ کرنے پر پابندیاں لگانے کا اعلان کیا۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کے باخبر ذرائع کے مطابق آئی سی سی حکام پی سی بی سمیت اِن ممالک کی جانب سے قانونی کارروائی کی دھمکیوں سے بھی مرعوب نہ ہوئے اور فیصلہ سنا ڈالا۔آئی سی سی چیف ایگزیکٹو ہارون لورگاٹ کہتےہیں کہ دنیا بھر کی فیڈریشنز کی طرح آئی سی سی ممبر ممالک کے بورڈز میں میں سیاسی اثرو رسوخ کا خاتمہ دراصل کرکٹ اور خود کرکٹ بورڈز کے مفاد میں ہے۔
پاکستان میں آئی سی سی کے اس فیصلے پر ملا جلا ردعمل سامنے آیا ہے۔عمران خان نے جہاں اس فیصلے کو خوش آئند قرار دیا۔وہیں سابق چیئرمین خالد محمود سمیت کچھ حلقوں نےاسے آئی سی سی کی جانب سے ممبر ممالک کے کرکٹ بورڈز میں مداخلت قراد دیدیا۔تاہم اس فیصلے پراگر کوئی سب سے زیادہ پریشان ہے تو وہ پی سی بی کے ملازمین ہیں، خصوصاً وہ جو چیئرمین پی سی بی کی پسند اور سفارشات پر ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔
رواں سال اکتوبر میں تو اعجاز بٹ صاحب ممکنہ طور پر اپنی مدت پورے ہونے کے بعد گھر چلے جائیں گے۔تاہم میڈیا ڈپارٹمنٹ سمیت خزانہ اور ایڈمنسٹریشن میں بٹ صاحب کے ہاتھوں ملازمت حاصل کرنیوالےاب پریشانی میں مبتلا ہیں۔درحقیقت ان کی کی پریشانی آئی سی سی کے فیصلے کے بعد دو چند ہوئی ہے۔پہلے اگر وہ بٹ صاحب کی رخصت پر اپنے مستقبل کے بارے میں فکر مند تھے تو اب آئی سی سی کےفیصلے کے بعد یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ اب ان کا ہوگا کیا؟
پاکستان میں کرکٹ ایسوسی ایشنز اس صورتحال پر سب سے زیادہ مطمئن دکھائی دیتی ہیں۔کیونکہ اگر آئی سی سی کا فیصلہ نافذ ہوا تو پھر ان کے نمائندے پی سی بی کے ایوانوں میں موجود ہوں گے اور ون مین شو کے نظام سے انہیں چھٹکارا بھی مل سکے گا جس کے ہوتے ہوئے وہ ہمشیہ نا انصافیوں کا رونا روتے رہے ہیں۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ پی سی بی بین الاقوامی کرکٹ کونسل کے احکامات پر اس قانون کے نفاذ لیے عملی اقدامات کا آغاز کب کرتا ہے۔