اسپاٹ فکسنگ ایک اور ابھرتا ہوا ستارہ نگل گئی
تحریر: عمران صدیق
اگست 2010ء میں پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان لارڈز میں جاری ٹیسٹ کے دوران اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل ابھرا ، جس نے ٹیم کو ہی نہیں بلکہ پوری قوم کو جنجھوڑ کر رکھ دیا۔ محمد عامر، محمد آصف اور کپتان سلمان بٹ کا نام سامنے آیا اور جرم ثابت ہونے کے بعد پاکستان ان تین اہم کھلاڑیوں سے محروم ہوگیا۔ محمد عامر تو سزا پوری کرکے واپس آگئے مگر اس پابندی نے شاید اُن کی قدرتی صلاحیت کو گہنا دیا ہے۔ دوسرے کھلاڑی اور "فلم" کے مرکزی کردار سلمان بٹ بھی واپسی کے لیے پر تول رہے ہیں ۔ کئی کھلاڑیوں اور کرکٹ کے مختلف حلقوں نے محمد عامر کی واپسی کی مخالفت کی اور آّج تک ڈٹے ہوئے ہیں اس لیے شاید سلمان اور آصف کی واپسی اتنی آسان نہ ہو۔ اس بدنام زمانہ اسکینڈل سے عین پہلے ٹیسٹ قیادت چھوڑنے والے شاہد آفریدی نے کہا ہے کہ اگر 2010ء میں کھلاڑیوں کو سخت سزائیں دی جاتیں تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا، وہی دن جو 9 فروری 2017ء کو پاکستان نے ایک بار پھر دیکھا، جس نے ایک اور ابھرتا ہوا ستارہ نگل لیا، یعنی شرجیل خان!
نئے اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل نے پاکستان سپر لیگ کو ایسا دھچکا پہنچایا ہے، جس کے 'آفٹر شاکس' ابھی تک محسوس کیے جا رہے ہیں اور جب جب کوئی پاکستانی بین الاقوامی کرکٹ میں ناکام ہوتا رہے گا، یہ احساس پیدا ہوتا رہے گا، شرجیل خان یاد آتا رہے گا۔ اس حرکت کے نتیجے میں پاکستان سپر لیگ جیسے ابھرتے ہوئے برانڈ پر جو دھبہ لگا اور قومی کرکٹ کی جو جگ ہنسائی ہوئی اس کی تو کوئی قیمت ہی نہیں لیکن شرجیل خان پر ممکنہ پابندی کے نتیجے میں قومی کرکٹ ٹیم کو جو نقصان پہنچے گا، وہ بھی بہت بڑا ہوگا۔ کرکٹ میں کوئی بھی کھلاڑی ایسا نہیں ہوتا جس کا متبادل نہ آ سکے لیکن جس طرح شرجیل خان کی کارکردگی میں روز بروز بہتری آ رہی تھی اور وہ ایک قابل بھروسہ بلے باز بنتے جا رہے تھے پاکستان کا ایک دیرینہ اوپننگ کا مسئلہ حل ہوتا نظر آ رہا تھا لیکن پھر "لارڈز" کی فلم کا سیکوئیل جاری ہوگیا۔ کہانی تو وہی رہی، لیکن ولن تبدیل ہوگئے۔
14 اگست 1989ء کو حیدرآبادمیں پیدا ہونے والے شرجیل خان نے 2013ء میں پاکستان کے لیے ڈیبیو کیا۔ پہلے مرحلے میں تو وہ خاطر خواہ کارکردگی نہ دکھا سکے اور نتیجہ اخراج کی صورت میں ہی میں نکلا۔ لیکن پاکستان سپر لیگ کا پہلا ایڈیشن شرجیل خان کے کیریئر کا 'ٹرننگ پوائنٹ' ثابت ہوا۔ دھواں دار بلے بازی اور اہم ترین مقابلے میں سنچری نے سلیکٹرز کی توجہ حاصل کرلی اور شرجیل خان کو پھر قومی کرکٹ ٹیم میں واپسی کا موقع مل گیا۔
پہلی بار منتخب ہونے پر شرجیل نے 11 مقابلوں میں 194 رنز بنائے تھے لیکن اگست 2016ء میں واپسی کے بعد انہوں نے 152 رنز کی دھواں دار اننگز کے ساتھ "انٹری" دی۔ اس کے بعد بھی شرجیل کا بلّا رنز اگلتا رہا۔ واپسی کے بعد سے اب تک وہ 14 ایک روزہ مقابلوں میں 44 کے اوسط سے 618 رنز بنا چکے ہیں جس میں آسٹریلیا کے خلاف لگاتار تین نصف سنچریاں بھی شامل ہیں۔ ان کا اسٹرائیک ریٹ بھی اس عرصے میں بہت عمدہ رہا ہے لیکن شاید اپنے عروج پر پہنچنے سے پہلے ہی شرجیل فکسرز کے ہاتھوں کلین بولڈ ہوگئے۔ اپنے پرستاروں کو مایوس کیا، والدین کو شرمندہ کیا اور خدشہ یہی ہے کہ بہت لمبے عرصے تک دوبارہ نظر نہیں آئیں گے۔
شرجیل خان کا کیریئر تو لالچ کے ہاتھوں تباہ ہوگیا لیکن اس سلسلے کی ایک کے بعد دوسری "فلم" بنانے والے پروڈیوسرز کا راستہ کیسے روکا جائے؟ اس کے علاوہ کیا شرجیل خان پر تاحیات پابندی کا کڑوا گھونٹ پینا ضروری ہے؟ یا انہیں بھی کم سزا دے کر واپسی کا موقع فراہم کیا جائے گا؟ چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ تو واضح کر چکے ہیں کہ اب ایسی سزا دی جائے گی کہ آئندہ کسی کو جرات نہیں ہوگی۔ لیکن الفاظ کو عملی جامہ پہنانا ضروری ہے ورنہ ہیروز کو ولن بننے کا یہ سلسلہ جاری رہے گا۔