پی ایس ایل فائنل اور 'لیجنڈز' کا رویہ

0 1,236

پہلے علامہ اقبال نے کہا تھا کہ "سو کام خوشامد سے نکلتے ہیں جہاں میں – دیکھو جسے دنیا میں خوشامد کا ہے بندا"۔ آج لگ بھگ ایک صدی گزرنے کے بعد بھی حالات مختلف نہیں ہیں۔ برصغیر پاک میں ہند میں خوشامد پسندوں کی اکثریت ہے۔ جو مدح سرائی کرے اسے صلاحیت سے بڑھ کر بھی نوازنے کو تیار ہوتے ہیں لیکن جو ایسا نہ کریں وہ جائز حق سے بھی محروم کردیے جاتے ہیں۔ ایسے میں "منہ پھٹ" قسم کے لوگوں سے کیسا سلوک روا رکھا جاتا ہوگا، یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں۔

اب سننے میں آ رہا ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے حکام نے پاکستان سپر لیگ کے فائنل کے لیے دنیا جہاں کو مدعو کیا ہے لیکن قذافی اسٹیڈیم کے انکلوژرز جن سے موسوم ہیں، ان میں سے چند کو دعوت نامہ بھیجنا گوارا ہی نہیں کیا۔ یہ نظر کرم جن سابقین پر کیا گیا ہے ان میں عمران خان، جاوید میانداد، سرفراز نواز اور عبد القادر نمایاں ہیں۔ گگلی ماسٹر عبد القادر اور عظیم بلے باز جاوید میانداد نے تو دعوت نامہ نہ ملنے کی باضابطہ تصدیق کی ہے بلکہ عبد القادر نے تو اسے بے عزتی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہمارا نام صرف 'شو پیس' کے طور پر استعمال ہوتا ہے ورنہ اصل عزت تو غیر ملکیوں کی ہے خواہ ان کا کیریئر چند میچز پر ہی مشتمل کیوں نہ ہو۔

یاد رہےکہ عمران خان نے پی ایس ایل2 کا فائنل لاہور میں کروانے کو پاگل پن قرار دیا تھا جبکہ سرفراز نواز نے حکومت سے مطالبہ کیا تھاکہ وہ پی ایس ایل کا آڈٹ کروائے۔ یقیناً دعوت نہ دینے کا انتہائی قدم انہی وجوہات کی بنیاد پر اٹھایا گیا ہوگا کیونکہ حقیقت بھی یہی ہے کہ ان لیجنڈز نے بھی بورڈ کے ساتھ کوئی رعایت کی اور نہ گند اچھالنے کا کوئی موقع ضائع کیا۔ اپنے عمران خان صاحب کو ہی لے لیجیے۔ بورڈ حکام نے بارہا عزت و احترام سے نوازا لیکن "کپتان" ناراض بچوں کی طرح منہ بسورے رہے۔ حال ہی میں جب چیئرمین پی سی بی شہریار خان نے کرکٹ نظام کی بہتری کے لیے سابقین سے تجاویز لینے کے لیے گول میز کانفرنس طلب کی اور وسعت قلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پہلی دعوت ہی عمران خان کو دی تو "کپتان" نے کرکٹ پر ذاتی پسند و ناپسند کو مقدم جانا اور اپنی شرکت کو نجم سیٹھی کو برخاست کرنے سے مشروط کردیا۔ جب پاکستان سپر لیگ کی افتتاحی تقریب میں شرکت کی دعوت ملی تو بھی خان صاحب انکاری ہی رہے اور ابھی کل ہی فرمایا ہے کہ انہوں نے پی ایس ایل کا ایک میچ بھی نہیں دیکھا۔

کچھ یہی معاملہ سرفراز نواز کا ہے، اور بہت پرانا ہے۔ ویسے تو وہ عمران خان کے دشمن نظر آتے ہیں لیکن جب بات پاکستان کرکٹ بورڈ کی آئے تو دونوں ایک ہی موقف رکھنے والے اتحادی بن جاتے ہیں۔ سرفراز ہمیشہ سے ناراض اور شاکی طبیعت کے ہیں۔ کوئي بھی مقابلہ ذرا غیر معمولی نوعیت اختیار کر جائے ان کی نظر میں کپتان سے لے کر کوچ اور سلیکشن کمیٹی سے لے کر بورڈ حکام تک سب میچ فکسنگ کرنے والے اور جواری قرار پاتے ہیں۔ وہ اس فارمولے کو اس بے رحمی کے ساتھ اور اتنی بار استعمال کر چکے ہیں اب اگر ان کی بات میں سچائی ہو بھی تو کوئی اہمیت نہیں دیتا۔ رہا عبد القادر اور جاوید میانداد کا معاملہ تو انہیں بورڈ صرف اس وقت اچھا لگتا ہے جب انہیں بھاری تنخواہوں کے ساتھ عہدوں سے نوازتا رہے۔ جیسے ہی وہ بورڈ سے الگ ہوتے ہیں اپنی تمام توپوں کا رخ پی سی بی کی طرف موڑ دیتے ہیں۔

اس لیے تالی یقیناً دونوں ہاتھ سے بج رہی ہے لیکن پی سی بی کا کردار پاکستان کرکٹ میں 'باپ' جیسا ہونا چاہیے، اور اسے بڑے پن کا ثبوت دینا ہوگا۔ ابھی جس طرح سننے کو مل رہا ہے کہ عبد القادر اور جاوید میانداد سمیت دیگر سابق کھلاڑیوں کو دعوت نامے ارسال کیے جا رہے ہیں اسی طرح عمران خان اور سرفراز نواز کو بھی ارسال کردیں تو کم از کم یہ حجت تمام ہو جائے گی۔ کرکٹ ہمیشہ سے پاکستان میں اتحاد و یکجہتی کی علامت رہا ہے اور اس تاثر کو قائم رہنا چاہیے۔

Imran-Khan