مصباح کی "برقراری"، بورڈ کی لاچاری

0 1,156

پاکستان کرکٹ بورڈ نے دورۂ ویسٹ انڈیز کے لیے مصباح الحق کو ٹیسٹ کپتان برقرار رکھنے کی تصدیق کردی ہے۔ چیئرمین شہریار خان کے مطابق مصباح الحق ویسٹ انڈیز کے خلاف ٹیسٹ سیریز کے لیے دستیابی ظاہر کر چکے ہیں اور بورڈ ان کے فیصلے کا احترام کرتا ہے اور سلیکشن کمیٹی کو پیغام دیتا ہے کہ آئندہ دورے میں مصباح ہی کپتان ہوں گے۔

یہ خبر ہر گز غیر متوقع نہیں کیونکہ "اسٹیٹس-کو" والی سوچ سے بڑے اور بروقت فیصلوں کی توقع ہرگز نہیں ہے۔ لیکن اس پر ضرور حیرانی ہے کہ فیصلے کا مکمل اختیار صرف مصباح الحق کے ہاتھوں میں ہے، جیسا انہوں نے چاہا ویسا ہی عمل ہوا۔ دورۂ آسٹریلیا میں شکست کی ہزیمت تو پاکستان سپر لیگ کے ہنگاموں میں کسی کو یاد بھی نہیں کہ جس کے بعد مصباح نے قیادت سے دستبردار ہونے کا اشارہ دیا تھا اور بورڈ نے بھی نیا نام تلاش کرنا شروع کردیا تھا۔ کبھی قیادت اظہر علی کو سونپنے کی بات ہوتی تو کبھی سرفراز احمد کا نام گردش کرنے لگتا لیکن پی ایس ایل میں اعزاز کے دفاع میں ناکامی کے باوجود صاحب کا موڈ بدل گیا تو ہر طرف خاموشی چھا گئی اور بالآخر اعلان ہوا کہ جو مزاجِ یار میں آئے۔

ہر بڑے اور کامیاب ادارے میں باضابطہ طور پر ایسا نظام ترتیب دیا جاتا ہے جہاں اہم فیصلے اجتماعی دانش سے کیے جاتے ہیں لیکن پاکستان کرکٹ بورڈ میں افراد کی پسند و نا پسند حرف آخر قرار پاتی ہے۔ ٹیسٹ دستے کی قیادت کے معاملے کو ہی لے لیجیے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ باقاعدہ ایک فورم اس کا جائزہ لیتا، ٹیسٹ دستے کی رو بہ زوال کارکردگی اور کپتان کی بڑھتی ہوئی عمر کو مدنظر رکھتے ہوئے کوئی فیصلہ کرتا لیکن اسے بھی مصباح الحق کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا۔

اب ذرا تصور کیجیے کہ کسی ادارے کے لیے یہ فقرہ کتنا خطرناک ہے کہ "فیصلہ فلاں کھلاڑی خود کرے گا"۔ کیا ادارہ اپنی ذمہ داری خود اٹھانے سے قاصر ہے؟ اگر معاملہ ریٹائرمنٹ کا ہو تو سمجھ آتا ہے کہ اس کا اختیار صرف کھلاڑی ہی کو حاصل ہونا چاہیے لیکن کیا دستےمیں شمولیت یا قیادت کا معاملہ بھی کسی کھلاڑی پر چھوڑا جا سکتا ہے؟ یقیناً نہیں لیکن مصباح پر خصوصی کرم ہے۔

نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کے ہاتھوں بدترین شکست کے بعد تو موقع ملا تھا کہ مصباح خود قیادت سے دستبردار ہو جاتے۔ وہ ویسے ہی انگلستان کے خلاف تاریخی کامیابی اور ویسٹ انڈیز کے خلاف 'ہوم' سیریز جیتنے کے بعد عزت سے ریٹائرمنٹ کا موقع گنوا چکے تھے لیکن اس کے بعد ملنے والی پے در پے شکستوں نے ان کی ساکھ کوبری طرح متاثر کیا۔

اب مصباح الحق کے سامنے بہت بڑا چیلنج ہے۔ ویسٹ انڈیز کا دورہ، ایک ایسی سرزمین کہ جہاں آج تک کوئی کپتان کبھی ٹیسٹ سیریز نہیں جیت سکا۔ نہ عمران خان، نہ جاوید میاندا د اور نہ وسیم اکرم۔کیا ویسٹ انڈیز کے دورے کے فوراً بعد 43 ویں سالگرہ منانے والے مصباح کچھ کر سکیں گے؟ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے دورے پر 8 اننگز میں صرف 120 رنز بنانے والے مصباح کون سی گیدڑ سنگھی استعمال کریں گے؟ یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن اس کے ساتھ ساتھ بورڈ نے بھی جس طرح اپنی لاچاری کا اظہار کیا ہے اس کے بعد خطرہ لاحق ہو گیا ہے کہ کچھ مہینے پہلے "نمبر ون" رہنے والا پاکستان لڑھکتا ہوا چھٹے نمبر پر تو آ گیا ہے، کہیں اس سے بھی نیچے نہ نکل جائے۔

Misbah-ul-Haq2