’’تبدیلی‘‘ آگئی ہے؟؟

0 1,139

دورہ ویسٹ انڈیز کیلئے ون ڈے اور ٹی 20 اسکواڈز کا اعلان کردیا گیا ہے ۔کافی عرصے کے بعد زیادہ تبدیلیاں دیکھنے کو ملی ہیں اور سب سے عمدہ بات یہ ہے کہ ڈومیسٹک کرکٹ میں اچھی کارکردگی دکھانے والے کچھ کھلاڑیوں کو اُن کی محنت کا صلہ بھی دیا گیا ہے ۔اگر اسکواڈز پر نظر ڈالی جائیں تو سب سے اہم نام کامران اکمل اور احمد شہزاد کے ہیں جنہوں نے ڈومیسٹک کرکٹ میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے اور شاداب خان، فخر زمان، فہیم اشرف جیسے نوجوان کھلاڑیو ں کو بھی پہلی مرتبہ پاکستانی ٹیم میں جگہ ملی ہے جبکہ عمر اکمل کو دونوں فارمیٹس سے ڈراپ کردیا گیا ہے اور اس کا جواز فٹنس کو بنایا گیا ہے۔ اس کیساتھ ساتھ سابق ون ڈے کپتان اظہر علی کو ’’مستعفی‘‘ ہونے کے بعد اگلی ہی سیریز سے ڈراپ کرنا اس بات کا اشارہ ہے کہ محدود اوورز کی ٹیموں کو درست خطوط پر استوار کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جس کی سربراہی سرفراز احمد کے ہاتھوں میں ہے۔

کامران اکمل اور احمد شہزاد تجربہ کار کھلاڑی ہیں جنہوں نے حالیہ عرصے میں ڈومیسٹک کرکٹ میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے جس کی وجہ سے ان کی واپسی ہوئی ہے۔خاص طور پر کامران اکمل کی کارکردگی مثالی رہی ہے اور اسکواڈز میں بطور بیٹسمین منتخب ہونے والے کامران اکمل کو سیکنڈ وکٹ کیپر کے طور پر بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔اس کے علاوہ جہاں پی ایس ایل میں عمدہ کارکردگی دکھانے والے نوجوانوں کو اگلے مرحلے پر ترقی دی گئی ہے وہیں ڈومیسٹک کرکٹ میں پرفارمنس دینے والے کھلاڑیوں پر بھی نظر کرم کی گئی ہے جس میں آصف ذاکر اور فہیم اشرف کا نام شامل ہیں۔ گزشتہ سیزن میں فرسٹ کلاس کرکٹ میں پرفارمنس دکھانے والوں فاسٹ بالر زمحمد عباس،تابش خان اور بیٹسمین عثمان صلاح الدین بھی شامل ہیں جنہیں محدود اوورز کے فارمیٹس میں موقع نہیں مل سکا ۔ممکن ہے کہ ان کھلاڑیوں کو ٹیسٹ سیریز میں موقع دیا جائے لیکن بہرحال یہ بات خوش آئند ہے کہ ڈومیسٹک سیزن میں اچھی کارکردگی دکھانے والے کچھ کھلاڑیوں کو ویسٹ انڈیز جانے کا موقع ضرور مل گیا ہے ۔آصف ذاکر اور فہیم اشرف کی سلیکشن سے اُن کھلاڑیوں کو ضرور حوصلہ ملا ہوگا جو ڈومیسٹک سطح پر عمدہ کارکردگی دکھانے کے باوجود پاکستانی ٹیم تک رسائی حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔

ٹیم کا اعلان ہونے سے ایک دن قبل پی سی بی کے سربراہ شہریارخان نے دو ٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ دو تین سینئرکھلاڑیوں سمیت مجموعی طور پر پانچ کھلاڑی ایسے ہیں جن کی فٹنس مطلوبہ معیار کی نہیں ہے اس لیے دورہ ویسٹ انڈیز کیلئے ان کے ناموں پر غور نہیں کیا جائے گا۔میڈیا میں یہ نام بھی سامنے آئے اور ان میں کامران اکمل، عمر اکمل اور عماد وسیم کے نام شامل تھے مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ جب ٹیم کا انتخاب ہوا تو ان تین میں سے دو کھلاڑی اسکواڈ میں شامل ہیں جبکہ عمر اکمل کو ڈراپ کردیا گیا۔اب سوال یہ ہے کہ کیا عمر اکمل کو واقعی فٹنس کی بنیاد پر ڈراپ کیا گیا ہے یا پھر بیٹسمین کو کسی اور ’’جرم‘‘ کی سزا دی گئی ہے۔ عماد وسیم کی فٹنس پر بھی شکوک و شبہات ظاہر کیے گئے مگر ٹی20ٹیم کا لازمی حصہ بن جانے والے آل راؤنڈر کو محض فٹنس کی بنیاد پر ڈراپ نہیں کیا گیا ۔ سلیکشن کمیٹی نے عمر اکمل اور اظہر علی سمیت جن کھلاڑیوں کو ڈراپ کیا ہے اگر اُن کے ڈراپ ہونے کی وجہ بھی بتا دی جاتی تو زیادہ بہتر ہوتا تاکہ کھلاڑیوں کو بھی علم ہوجاتا کہ انہیں کیوں ٹیم سے نکالا گیا ہے۔اس کے علاوہ پی ایس ایل میں سب سے زیادہ وکٹیں لینے والے سہیل خان کی غیر موجودگی بھی سوالات اُٹھا رہی ہے جس پر کوئی وضاحت نہیں دی گئی۔

دونوں اسکواڈز میں ٹاپ آرڈر کو مضبوط کرنے کی کوشش کی گئی ہے جس میں کامران اکمل اور احمد شہزاد کیساتھ فخر زمان اورمحمد حفیظ شامل ہیں جبکہ پی ایس ایل میں بابر اعظم بھی اننگز کا آغاز کرتے ہوئے دکھائی دیے ہیں اس لیے کپتان کیلئے بیٹنگ آرڈر کا انتخاب دشوار ہوسکتا ہے ۔پی ایس ایل میں اوسط درجے کی کارکردگی دکھانے والے فاسٹ بالر محمد عامر کو’’آرام‘‘ کی غرض سے ٹی20میں شامل نہیں کیا گیا جبکہ رومان رئیس اور عثمان شنواری کو پی ایس ایل میں عمدہ کارکردگی کا صلہ دیا گیا ہے۔وہاب ریاض اور حسن علی دونوں اسکواڈز کا حصہ ہیں اور اس کیساتھ ساتھ جنید خان کو ون ڈے ٹیم میں جگہ دی گئی ہے۔

ایک عرصے کے بعد ایسی ٹیموں کا انتخاب کیا گیا ہے جس میں قومی ٹیم کیلئے اچھی کارکردگی دکھانے والے کھلاڑیوں کیساتھ ان کھلاڑیوں کو بھی ٹیم میں جگہ دی گئی ہے جنہوں نے ڈومیسٹک کرکٹ اور پی ایس ایل میں نمایاں کارکردگی دکھائی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں اسکواڈز واقعی ’’تبدیل شدہ‘‘ لگ رہے ہیں ۔اس لیے اب یہ اُمید بھی کی جاسکتی ہے کہ تجربہ کار اور نوجوان کھلاڑیوں کا یہ امتزاج محدود اوورز کے فارمیٹس میں قومی ٹیم کی کارکردگی کا گراف بلند کرے گا ۔ان کھلاڑیوں کو منتخب کرکے سلیکشن کمیٹی نے پہلا قدم صحیح سمت میں اُٹھایا ہے اور ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کھلاڑیوں کو پورا موقع بھی دیا جائے کیونکہ یہ کھلاڑی پورے عمل سے گزر کر یہاں تک پہنچے ہیں اس لیے ایک دو میچز کی ناکامی پر یا موقع دیے بغیر انہیں ڈراپ کرنا درست نہ ہوگاورنہ ان کا حال بھی صدف حسین اور عثمان صلاح الدین جیسا ہوگا جو 2011ء میں ویسٹ انڈیز جانے کے بعد دوبارہ کبھی پاکستانی ٹیم میں منتخب نہ ہوسکے!