صلاحیت کی تلاش صرف پی ایس ایل سے کیوں؟

0 2,396

ویسٹ انڈیز کیخلاف ٹی20سیریز متعدد حوالوں سے یادگار اور سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے جس میں پاکستانی ٹیم کی طرف سے بہت سی نئی چیزیں کی گئیں۔سرفراز احمد کو اس ٹور کیلئے ٹی20 کیساتھ ساتھ ون ڈے ٹیم کی بھی کپتانی سونپ دی گئی۔شرجیل خان اور خالد لطیف کی معطلی کے بعد کامران اکمل، احمد شہزاد جیسے کھلاڑیوں کی قومی ٹیم میں واپسی ہوئی اور نوجوان شاداب خان کو پی ایس ایل میں شاندار کارکردگی کا صلہ قومی ٹیم میں شمولیت کی صورت میں ملا۔ سرفراز کی کپتانی میں پاکستانی ٹیم نے سیریز باآسانی جیت لی اور اس سیریز کی سب سے خاص بات نوجوان لیگ اسپنر شاداب خان کی غیر معمولی کارکردگی تھی جس نے پہلے دو میچز میں مین آف دی میچ ایوارڈ حاصل کرتے ہوئے چار میچز کی سیریز میں 10وکٹیں اپنے نام کرلیں جس نے شاداب خان کو نہ صرف سیریز کے بہترین کھلاڑی کا ایوارڈ دلوادیا بلکہ دو طرفہ سیریز میں پاکستان کی طرف سے سب سے زیادہ وکٹیں لینے کا اعزاز بھی دلوادیا۔

ویسٹ انڈیز کیخلاف سیریز میں پاکستان نے چار میں سے تین میچز میں کامیابی حاصل کی اور یہ ایسا نتیجہ ہے جس کی امید کی جارہی تھی۔ پاکستان کی بیٹنگ لائن نے ایسی کارکردگی نہیں دکھائی جسے شاندار کہا جاسکے کیونکہ پوری سیریز میں صرف احمد شہزاد نے ایک نصف سنچری اسکور کی مگر اوپننگ بیٹسمین دیگر تین اننگز میں 31رنز ہی بنائے ۔بابر اعظم واحد پاکستانی بیٹسمین تھا جس کے مجموعی رنز کی تعداد سو سے زائد رہی ۔شاداب خان کو ایک طرف کرتے ہوئے اگر بالنگ کی بات کریں تو کوئی ایسی حوصلہ افزا کارکردگی سامنے نہیں جسے قابل فخر قرار دیا جاسکے۔ حسن علی نے رنز روکنے کا فریضہ عمدگی سے سر انجام دیا مگر چار میچز میں فاسٹ بالر کو چار وکٹیں ہی مل سکیں۔وہاب ریاض کی جانب سے رنز دینے کی فیاضی کا معاملہ بدستور جاری رہا۔تیسرے ٹی20میں پاکستانی بالرز بالکل بے بس دکھائی دیے جبکہ تین میچز جیتنے کے باوجود پاکستانی بیٹسمین ڈاٹ بالز کھیلنے کی عادت سے چھٹکارا نہیں پاسکے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو واضح مارجن سے سیریز جیتنے کے باوجود شاداب خان کے علاوہ پاکستانی کھلاڑی ایسی کارکردگی نہیں دکھا سکے جسے متاثر کن کہا جائے

شاداب خان نے اس سیریز سے اپنے انٹرنیشنل کیرئیر کا آغاز شاندار انداز سے کیا ہے جس کی بالنگ کو سمجھنا ویسٹ انڈین بیٹسمینوں کیلئے نہایت مشکل ثابت ہوا۔ 18سالہ شاداب کی سب سے بڑی خوبی اس کا اعتماد ہے جس کے سہارے وہ انٹرنیشنل کرکٹ میں بھی کامیابی کیساتھ اُترا ہے۔عام طور پر لیگ اسپنرز گگلی کا استعمال خاص مواقع پر کرتے ہیں مگر شاداب خان کے اعتماد کا یہ عالم ہے کہ اکثر اوقات وہ اسپیل کا آغاز ہی گگلی سے کرتا ہے اور گگلی بھی ایسی باکمال جو اُسی رفتار سے پچ ہوتی ہے جس سے عام طور پر لیگ اسپن کی جاتی ہے۔شاداب خان کی آمد نے یہ بات ضرور ثابت کردی ہے اب بھی پاکستان میں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں ہے مگر اس ٹیلنٹ کو مناسب رہنمائی کی ضرورت ہے جو نہیں مل رہی۔ایک برس قبل انڈر19ورلڈ کپ کھیلتے ہوئے شاداب خان کی کارکردگی کا معیار کافی بہتر تھا جس کا اعتراف جونیئر ٹیم کے کوچ نے بھی کیا اور پھر ڈومیسٹک کرکٹ میں ٹی20کھیلتے ہوئے بھی راولپنڈی کے آل راؤنڈر نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔پاکستان اے کیلئے شاداب خان کی ’’شادابی‘‘ ہر کسی کو دکھائی دے رہی تھی مگر نوجوان کھلاڑی کو انٹرنیشنل سطح پر کھلانے کا خطرہ مول نہیں لیا گیا لیکن جیسے ہی شاداب خان نے پاکستان سپر لیگ میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا تو جونیئر کھلاڑی کو انٹرنیشنل کرکٹ میں اتار دیا گیا۔

شاداب خان کی مثال جہاں یہ ثابت کرتی ہے کہ پاکستان میں صلاحیت کی کمی نہیں ہے وہیں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ صلاحیت کو پرکھنے کا پیمانہ پی ایس ایل ہی بن گیا ہے کیونکہ ڈومیسٹک سطح پر اچھی کارکردگی دکھانے والے نوجوان کھلاڑیوں کی صلاحیت کو مشکوک ہی سمجھا جاتا ہے لیکن جیسے ہی وہ پاکستان سپر لیگ میں عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کریں تو ان کے ٹیلنٹ کے بارے میں کوئی ابہام باقی نہیں رہتا۔ یہ اپروچ ثابت کررہی ہے کہ سلیکشن کمیٹی اور دیگر متعلقہ افراد ڈومیسٹک کرکٹ پر گہری نگاہ نہیں رکھے ہوئے اور اس سطح پر نظر آنے والی صلاحیت پر وہ بھروسہ کرنے کیلئے تیار نہیں لیکن جب پی ایس ایل کی فرنچائز ٹیمیں کسی نوجوان کو اسکواڈ کا حصہ بناتی ہیں اور وہ کھلاڑی ٹی20لیگ میں اچھی کارکردگی دکھا دے تو پھر سلیکشن کمیٹی اس کی صلاحیت پر پسندیدگی کی مہر ثبت کردیتی ہے۔

چیف سلیکٹر انضمام الحق خود بھی اسی خام صلاحیت کی بنیاد پر قومی ٹیم کا حصہ بنے تھے جو اُن کے کپتان نظر آگئی تھی اور کپتان کی آنکھ نے نوجوان بیٹسمین کو ورلڈ کپ کے اسکواڈ میں شامل کرنے کا خطرہ مول لے لیا مگر سلیکشن کمیٹی کا سربراہ بننے کے بعد انضمام الحق ایسی خام صلاحیت کو تلاش کرنے میں ناکام رہے ہیں ۔شاداب خان کی تلاش پی ایس ایل سے ممکن ہوئی ہے لیکن ڈومیسٹک کرکٹ میں اب بھی ایسے نوجوان موجود ہیں جو کم عمر مگر نہایت باصلاحیت ہیں لیکن سلیکشن کمیٹی کی ’’آنکھ‘‘ میں وہ محض اس لیے نہیں جچ رہے کہ انہوں نے پی ایس ایل میں حصہ نہیں لیا اور چار رکنی مجلس انتخاب میں نہ اتنی اہلیت ہے اور نہ جرات کہ وہ کسی خام صلاحیت کو نکھارتے ہوئے انٹرنیشنل کرکٹ میں اُتار سکیں!