کوئٹہ اور کراچی پہلے مرحلے میں ہی باہر کیوں ہوئے؟

ایک، ایک بار کی چیمپیئن ٹیمیں اس بار خود کو ثابت نہیں کر پائیں

0 1,001

پاکستان سپر لیگ کا پہلا مرحلہ مکمل ہو چکا بلکہ اب پلے آف بھی شروع ہو چکے ہیں جہاں ملتان سلطانز، لاہور قلندرز، پشاور زلمی اور اسلام آباد یونائیٹڈ آمنے سامنے ہیں۔ یعنی دو ٹیمیں ہی ایسی ہیں جو پیچھے رہ گئیں اور اہم مرحلے تک پہنچنے میں ناکام رہیں: ایک کراچی کنگز اور دوسری کوئٹہ گلیڈی ایٹرز۔

کراچی اور کوئٹہ ماضی میں ایک، ایک بار پی ایس ایل چیمپیئن رہ چکے ہیں۔ ان کا یوں بُری طرح شکست کے بعد باہر ہونا بہت سے پرستاروں کے لیے بہت مایوس کن ہے۔

کوئٹہ: زوال کی انتہاؤں پر


افسوس کی بات یہ ہے کہ کوئٹہ کا زوال تو اس کے چیمپیئن بننے کے فوراً بعد ہی شروع ہو گیا تھا۔ کہاں وہ ابتدائی چار سیزنز کی کامیاب ترین ٹیم اور کہاں یہ حال کہ پچھلے تین سیزنز سے کوئٹہ پہلے ہی مرحلے میں باہر ہو رہا ہے اور پلے آف تک رسائی بھی حاصل نہیں کر پایا۔ گزشتہ تین سالوں میں تو کوئٹہ کی کارکردگی اس زوال کو پہنچ گئی ہے کہ ان سیزنز میں کسی ٹیم نے کوئٹہ جتنے مقابلے نہیں ہارے۔ 2020ء، 2021ء اور 2022ء میں کوئٹہ نے اپنے صرف ایک تہائی مقابلے جیتے ہیں۔

شکست کی بنیادی وجوہات


رواں سال کوئٹہ کی ناکامی کا بڑا سبب جہاں حکمتِ عملی کا فقدان ہے، وہیں ٹیم کی باڈی لینگویج بھی ہر گز اس کے شایانِ شان نہیں تھی۔ خاص طور پر کپتان سرفراز احمد کا رویہ ان کے قومی ٹیم سے باہر ہونے کے بعد سے سخت ہوتا جا رہا ہے۔ ان کے لہجے اور انداز میں کافی تلخی در آئی ہے، جس کا مجموعی طور پر ٹیم کوئٹہ پر بُرا اثر پڑا ہے۔ بلاشبہ یہ ان کا خاص انداز ہے، لیکن حالات اور معاملات کو دیکھتے ہوئے اپنے رویّے میں تبدیلی لانا پڑتی ہے۔

بہرحال، حکمت عملی کے فقدان کا آغاز  کھلاڑیوں کے انتخاب کے دن سے ہی نظر آ رہا ہے۔ ابھی تک سمجھ نہیں آئی کہ شاہد آفریدی، سہیل تنویر اور عمر اکمل کا انتخاب کیا سوچ کر کیا گیا تھا؟ کیا ان سے فیصلہ کُن کارکردگی کی توقع تھی؟ اس کے بعد کوئٹہ کے ناکام ہونے میں جو کسر رہ گئی تھی وہ محمد حسنین کا باؤلنگ ایکشن غیر قانونی قرار دیے جانے اور پھر سیزن کے درمیان میں محمد نواز کے زخمی ہونے سے پوری ہو گئی۔

پھر جن کھلاڑیوں پر تکیہ تھا، وہی تسلسل کے ساتھ نہیں چل پائے: مثلاً جیمز وِنس، افتخار احمد، بین ڈکٹ۔

چند روشن پہلو


البتہ جیسن روئے، ول سمیڈ، احسان علی اور نسیم شاہ نے بہترین کارکردگی دکھائی  اور اگر سیزن میں کوئٹہ کا حال کراچی جیسا نہیں ہوا تو اس کی وجہ ان کھلاڑیوں ہی کی پرفارمنس تھی۔

اب آگے کیا؟

کوئٹہ کو یہ بات یاد رکھنی ہے کہ جدید کرکٹ میں کوئی بھی تاریخ کی بنیاد پر نہیں جیتتا۔ ایسا ہوتا تو پاکستان گزشتہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں بھارت کو اتنی بُری طرح شکست نہ دے پاتا۔ کرکٹ اب ہر دن بلکہ ہر پل رنگ بدلنے والا کھیل ہے۔ اسے کھیلنے کے لیے اب حکمت عملی بھی ایسی ہی ہونی چاہیے۔ گلیڈی ایٹرز کو اب بڑی تبدیلی کی ضرورت ہے اور ہو سکتا ہے کہ بہت سے کھلاڑیوں کے لیے یہ آخری سیزن ثابت ہو اور مسلسل تین سال کی ناکامیوں کے بعد اگلے برس کوئٹہ کے اسکواڈ میں بڑی تبدیلیوں کی توقع ہے۔

کراچی: اونچی دکان، پھیکا پکوان


کراچی اور لاہور پاکستان کے سب سے بڑے شہر ہیں اور یہی وجہ ہے کہ کنگز اور قلندرز کی فالوور شپ بھی بہت زیادہ ہے۔ پاکستان سپر لیگ کے ابتدائی سیزنز میں ان دونوں ٹیموں کی کارکردگی بہت ہی مایوس کُن تھی۔ ان کے نصیب تب جاگے جب پی ایس ایل مکمل طور پر پاکستان منتقل ہوئی۔

دونوں نے 2019ء کے سیزن میں غیر معمولی کارکردگی دکھائی، یہاں تک کہ فائنل میں کراچی اور لاہور ہی کا مقابلہ ہوا اور کنگز نے اپنا پہلا، اور آخری، پی ایس ایل ٹائٹل جیتا۔

لیکن اس کے بعد کیا ہوا؟ خود دیکھ لیں: کراچی گزشتہ سال نیٹ رن ریٹ کی بنیاد پر بڑی مشکل سے گرتے پڑتے پلے آف تک تو پہنچ گیا تھا لیکن اِس سال تو کنگز نے حد ہی کر دی۔ مسلسل 8 میچز ہار گیا! اتنے تواتر سے پی ایس ایل کی تاریخ میں کبھی کوئی نہیں ہارا۔ سیزن میں کھیلے گئے 10 میچز میں کراچی نے واحد کامیابی اپنے روایتی حریف لاہور کے خلاف حاصل کی اور بہت سے سوالات کے ساتھ اعزاز کی دوڑ سے باہر ہو گیا۔

مسائل کی آماجگاہ

کراچی نے بھی کوئٹہ کی طرح اسکواڈ کے انتخاب میں بنیادی نوعیت کی غلطیاں کی تھیں۔ بلکہ ان کے اسکواڈ پر ایک نظر ڈالیں، آپ سمجھ جائیں گے کہ انہوں نے اپنی فرسٹ الیون کو ذہن میں رکھ کر ٹیم ترتیب دی تھی اور بینچ اسٹرینتھ کے بارے میں سوچا ہی نہیں۔ یعنی ٹیم کا کوئی پلان 'بی' سرے سے تھا ہی نہیں۔

نتیجہ یہ نکلا کہ محمد عامر زخمی  اور عماد وسیم کرونا وائرس کا شکار ہوئے تو ٹیم اندھیروں میں بھٹک گئی۔ جن کھلاڑیوں پر اعتماد تھا، وہ چل کر نہیں دیے۔ مثلاً شرجیل خان، کراچی سمجھ رہا تھا کہ وہ تنِ تنہا ہی کافی ہوں گے لیکن حقیقی دنیا  توقعات سے کہیں مختلف ہوتی ہے۔ اکّا دکّا جن میچز میں شرجیل کا بلّا چلا، وہاں بھی ٹیم ناکام ہوئی۔

پھر کراچی کے دیگر کھلاڑی بھی کچھ خاص کارکردگی نہیں دکھا سکے۔ جو کلارک کچھ خاص نہیں کر پائے، محمد نبی بھی بجھے بجھے نظر آئے، عمید آصف کا زمانہ بھی لگتا ہے گزر چکا۔

ایک المیہ کراچی کا

کراچی کا ایک المیہ یہ ہے کہ ٹیم نوجوانوں کو موقع دینے کے معاملے میں ہمیشہ سے بہت کنجوس دکھائی دیتی ہے۔ کئی باصلاحیت کھلاڑی پورا سیزن ٹیم ڈگ آؤٹ ہی میں بیٹھے گزار دیتے ہیں۔ اس مرتبہ چند کھلاڑیوں کو مجبوراً موقع دینا پڑا اور انہوں نے خود کو ثابت کیا۔ جیسا کہ میر حمزہ۔ جو کراچی کنگز تو کجا کسی بھی ٹیم میں شامل نہیں تھے لیکن ایک کے بعد دوسرے کھلاڑی کے باہر ہونے سے مجبوراً کراچی کو میر حمزہ کو موقع دینا پڑا اور انہوں نے صرف چار میچز میں 8 وکٹیں حاصل کر کے خود کو ثابت کیا۔ کراچی کو سیزن کی واحد فتح بھی میر حمزہ ہی نے دلائی۔

اب انقلاب کی ضروت

اس لیے کراچی کو کوئٹہ کی طرح اگلے سیزن میں بڑی تبدیلیوں کی ضرورت ہوگی۔ انہیں سب سے پہلے یہ سوچنا ہوگا کہ اگر دو فرنٹ لائن باؤلرز زخمی ہو جائیں تو وہ کس کو کھلائیں گے؟

اس کے لیے وہ ملتان سلطانز اور اسلام آباد یونائیٹڈ کی حکمت عملی سے سیکھیں، جو اپنی سیکنڈ الیون سے بھی بہترین کارکردگی دکھا رہے ہیں۔

ان سوالوں کے جوابات حاصل کرنے کے لیے کراچی اور کوئٹہ کے پاس کافی وقت ہے، اس لیے سوچ سمجھ کر فیصلے کریں کیونکہ غلطیوں سے بہتر استاد کوئی نہیں ہوتا۔