پاکستان ایک معجزے کی جانب رواں دواں
کراچی ٹیسٹ کے چوتھے روز جو کچھ ہوا اُس کے بعد اگر پاکستان واقعی ہدف تک پہنچ جاتا ہے تو یہ کسی معجزے سے کم نہیں ہوگا کیونکہ آج تک ایسا کبھی نہیں ہوا۔
پاکستان کو آسٹریلیا کے خلاف دوسرے ٹیسٹ میں 506 رنز کے جس ہدف کا سامنا ہے وہ تاریخ میں کبھی کوئی ٹیم حاصل نہیں کر پائی۔ کرکٹ کی 145 سالہ تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی ٹیم نے 500 سے زیادہ رنز کا ہدف حاصل کیا ہو اور نہ ہی ایسی کوئی ٹیم ہے جو پہلی اننگز میں 400 سے زیادہ رنز کا خسارہ پانے کے باوجود جیتنے میں کامیاب ہو گئی ہو۔ اس لیے اگر پاکستان کوئی واقعی آخری دن باقی ماندہ 314 رنز بنا لیتا ہے تو یہ ایک کرامت ہی ہوگی۔
پاک-آسٹریلیا دوسرے ٹیسٹ کے چوتھے روز آسٹریلیا کا آغاز پچھلے دن کے اختتام ہی کی طرح عجیب سا تھا۔ آسٹریلیا نے محض 22.3 اوورز کے کھیل کے بعد اپنی دوسری اننگز 97 رنز پر ہی ڈکلیئر کر دی۔ سمجھ نہیں آئی کہ آخر پیٹ کمنز نے پاکستان کو فالو-آن پر مجبور کیوں نہیں کیا؟ اگر انہیں صرف اتنے اوورز ہی کھیلنے تھے تو بہتر تھا کہ تیسرے روز کے آخری اور چوتھے دن کے ابتدائی لمحات کا فائدہ اٹھانے کے لیے پاکستان کو دوبارہ کھیلنے پر مجبور کرتے؟
شاید جلد ہی آسٹریلوی کپتان کو غلطی کا اندازہ ہو گیا اور اچانک آسٹریلیا کی اننگز کا خاتمہ کر دیا اور پاکستان کو دیا 506 رنز کا ایسا ہدف، جسے دیکھ کر ہی دانتوں پسینہ آ رہا ہے۔
پاک-آسٹریلیا دوسرا ٹیسٹ 2022ء
12 تا 16 مارچ 2022ء
نیشنل اسٹیڈیم، کراچی
پاکستان کو جیتنے کے لیے مزید 314 رنز کی ضرورت
آسٹریلیا (پہلی اننگز) | 556/9 ڈ | ||||
عثمان خواجہ | 160 | 369 | فہیم اشرف | 2-55 | 21 |
پاکستان (پہلی اننگز) | 148 | ||||
بابر اعظم | 36 | 79 | مچل اسٹارک | 3-29 | 13 |
آسٹریلیا (دوسری اننگز) | 97-2 ڈ | ||||
مارنس لبوشین | 44 | 49 | شاہین آفریدی | 1-21 | 6.3 |
پاکستان (ہدف: 506 رنز) | 192-2 | ||||
بابر اعظم | 102 | 197 | کیمرون گرین | 1-15 | 8 |
توقع تو یہی تھی کہ میچ کے پانچویں دن کا کھیل ہوگا ہی نہیں۔ پاکستان کی پہلی اننگز میں "حرکتیں" ہی ایسی تھیں لیکن آسٹریلوی کپتان کے فالو-آن پر مجبور نہ کرنے کے فیصلے نے پاکستان کو موقع ضرور دے دیا ہے۔ اب بھی ہدف بہت دُور کی منزل ہے، لیکن امید پہ دنیا قائم ہے!
چوتھے دن کی خاص بات تھی بابر اعظم کی سنچری اور عبد اللہ شفیق کے ساتھ اُن کی طویل اور ناقابلِ شکست 171 رنز کی پارٹنرشپ۔ لیکن اس سے پہلے جو کچھ ہوا، وہ حد درجہ مایوس کُن تھا۔
امام الحق نہ صرف ابتدا ہی میں ایل بی ڈبلیو ہو گئے بلکہ جاتے جاتے ریویو بھی ضائع کروا گئے۔ اُن کے بعد اظہر علی ایک شارٹ گیند کو باؤنسر سمجھ کر جھکے لیکن گیند اٹھی ہی نہیں اور انہیں اس حالت میں وکٹوں کے سامنے جا لیا کہ بے اختیار سچن تنڈولکر کی یاد آ گئی جو ایک زمانے میں گلین میک گرا کے ہاتھوں ایسے ہی آؤٹ ہوئے تھے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ اظہر نے امپائر کے فیصلے کے خلاف ریویو نہیں لیا حالانکہ ری پلے میں صاف ظاہر تھا کہ گیند پہلے اُن کے دستانے کو چھوتی ہوئی گئی ہے۔ آخر اظہر نے ریویو کیوں نہیں لیا؟ یہ بات اسی طرح سمجھ نہیں آئی جس طرح کمنز کا پاکستان کو فالو-آن نہ کرنے کا فیصلہ تھا۔
بہرحال، صرف 21 رنز پر پاکستان کی دو وکٹیں گر چکی تھیں اور ایک بھیانک شکست منہ کھولے سامنے کھڑی تھی۔ اس نازک صورت حال میں اوپنر عبد اللہ شفیق کا ساتھ دینے کے لیے کپتان بابر اعظم آئے۔ دونوں نے کھیلنا شروع کیا اور کیا ہی خوب کھیلے۔ اگلے 60 اوورز تک ہمیں میدان پر اُن کی بادشاہت ہی نظر آئی۔
آسٹریلیا نے بڑا زور لگایا، بہت پینترے بدلے، کئی نفسیاتی حربے تک استعمال کیے لیکن اُن دونوں کی وکٹ نہیں ملنی تھیں، نہ ملی۔ آسٹریلیا کی کوئی چال کارگر ثابت نہ ہوئی یہاں تک کہ دن کے آخری لمحات میں بابر اعظم نے اپنی چھٹی سنچری مکمل کر لی۔
یہ تقریباً دو سال کے عرصے میں بابر اعظم کی پہلی ٹیسٹ سنچری تھی اور یقین کریں سنچری بنانے کا اس سے بہتر کوئی وقت ہو نہیں سکتا تھا۔ اس تاریخی اننگز کے بعد جشن مناتے ہوئے ڈریسنگ رُوم کی طرح جو اشارہ کیا، وہ ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان کو اِس وقت کس چیز کی ضرورت ہے، جی ہاں! ٹھنڈے دماغ کے ساتھ کھیلنے۔ کیونکہ کام ابھی باقی ہے!
جب آسٹریلیا کو نئی گیند ملنے کے کچھ ہی دیر بعد چوتھے دن کا کھیل ختم ہوا تو بابر اعظم 197 گیندوں پر 12 چوکوں کی مدد سے 102 رنز اور عبد اللہ شفیق 226 گیندوں پر ایک چھکے اور 4 چوکوں کی مدد سے 71 رنز کے ساتھ میدان سے واپس آئے۔
عبد اللہ شفیق نے بھی ناقابلِ یقین کھیل کا مظاہرہ کیا ہے اور اس میں قسمت نے بھی اُن کا بھرپور ساتھ دیا۔ وہ صرف 20 رنز پر تھے کہ سلپ میں اسٹیون اسمتھ نے ان کا 'حلوہ' کیچ چھوڑ دیا تھا اور جب 33 پر پہنچے تو رن آؤٹ سے بال بال بچے۔
لیکن توقعات کے گھوڑوں کو ابھی باندھ کر رکھیں، کیونکہ پانچویں دن کا کھیل آسان نہیں ہوگا۔
پاکستان نے اب تک جتنے اوورز کھیلے ہیں، یعنی 82، اس سے زیادہ تو اب بھی باقی ہیں۔ جیت کے لیے پاکستان کو مزید 314 رنز درکار ہیں جو بن بھی پاتے ہیں یا نہیں، اِس سے بھی زیادہ باقی ماندہ 90 اوورز کھیلنا مشکل کام ہوگا۔
بہرحال، وکٹ ابھی تک بہت زیادہ خراب نہیں ہوئی اور اب بھی کافی حد تک بلے بازی کے لیے سازگار ہے اس لیے پاکستان کو ہر سیشن کے اہداف مقرر کر کے ان کے لحاظ سے کھیلنا ہوگا۔ جب ہدف قریب آئے گا تو دیکھا جائے گا۔
ویسے اگر پانچویں دن صبح نئی گیند کے ساتھ آسٹریلیا کے باؤلرز کو کچھ مدد مل گئی تو پاکستان کے لیے معاملہ مشکل سے مشکل تر ہوتا چلا جائے گا۔