[آج کا دن] شعیب اختر اور 100 کلومیٹرز فی گھنٹہ

0 1,001

یہ اپریل 2002ء تھا۔ نائن الیون کے بعد پاکستان کا پہلا مکمل دورہ کرنے والی ٹیم نیوزی لینڈ تھی جو تین ون ڈے اور دو ٹیسٹ میچز کھیلنے کے لیے آئی تھی۔ سیریز کا تیسرا ون ڈے آج ہی کے دن یعنی 27 اپریل کو لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں کھیلا جا رہا تھا جہاں نیوزی لینڈ 279 رنز کے تعاقب میں تھا۔

شعیب اختر یہاں اپنا دوسرا اوور کروانے کے لیے آئے۔ ان کا سامنا کر رہے تھے کریگ میک ملن۔ جب ایک گیند کے بعد ایک اسپانسر کی جانب سے لگائی گئی اسپیڈ گن نے نتیجہ دکھایا اور اسکرین پر 161.0 کلومیٹرز فی گھنٹہ کا ہندسہ جگمگا اٹھا۔ یعنی یہ گیند 100.4 میل فی گھنٹہ کی تھی۔ تاریخ میں پہلا موقع کہ کسی باؤلر نے 100 میل فی گھنٹہ کا سنگِ میل عبور کیا ہو۔

شعیب اختر پہلی بار 100 میل فی گھنٹہ کا سنگ میل عبور کرنے کے بعد اسپیڈ گن کے ساتھ (تصویر: AFP)
شعیب اختر پہلی بار 100 میل فی گھنٹہ کا سنگ میل عبور کرنے کے بعد اسپیڈ گن کے ساتھ (تصویر: AFP)

لیکن انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے اس ریکارڈ کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ اسپانسر کی جانب سے لگائی گئی اسپیڈ گن عالمی معیار کے مطابق نہیں تھی۔ گو کہ کافی وضاحت پیش کی گئی کہ یہ اسپیڈ گن معروف امریکی کمپنی اسٹاکر کی تیار کردہ ہے جو بیس بال کے مقابلوں میں بڑے پیمانے پر استعمال ہوتی ہے اور اس کے ریکارڈز تسلیم کیے جاتے ہیں، لیکن آئی سی سی ٹس سے مس نہ ہوا۔ یوں شعیب اختر اس سنگِ میل کو عبور کر کے بھی ریکارڈ بک میں اپنا نام نہ لکھوا سکے اور 27 اپریل کا دن امر نہیں ہو سکا۔

یعنی جیف تھامسن کا وہ ریکارڈ برقرار رہا جو انہوں نے ‏1975-76ء میں نیٹ میں 99.8 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے گیند پھینک کر قائم کیا۔ جی ہاں! نیٹس میں۔

خیر، شعیب اختر کہاں باز آنے والے تھے؟ انہوں نے ایک سال کے اندر اندر ثابت کیا کہ اگر دنیا کا کوئی باؤلر اس ریکارڈ کا حقدار ہے تو وہ وہی ہیں۔ انہوں نے آئی سی سی کے منعقدہ ٹورنامنٹ میں، اس کی اپنی لگائی گئی اسپیڈ گن پر، اس سے بھی تیز گیند پھینک کر نیا عالمی ریکارڈ بنا ڈالا۔

یہ ورلڈ کپ 2003ء میں پاکستان اور انگلینڈ کا میچ تھا کہ جس کے دوران شعیب اختر نے 161.3 تین کلومیٹرز فی گھنٹہ کی گیند پھینک کے ایسا ریکارڈ بنایا جو آج بھی قائم و دائم ہے۔

اس یادگار لمحے کا ذکر شعیب اختر نے اپنی آپ بیتی Controversially Yoursمیں کچھ ان الفاظ میں کیا ہے:

وہ ورلڈ کپ 2003ء میں 22 فروری کا دن تھا جب وہ لمحہ آ پہنچا جس کا مجھے مدتوں سے انتظار تھا۔ پاکستان نیولینڈز، کیپ ٹاؤن میں انگلینڈ کے مدمقابل تھا اور میچ کی ابتدائی لمحات ہی میں مجھے اندازہ ہو گیا کہ میں نے بلے باز نک نائٹ کو غیر معمولی تیز گیند پھینکی ہے۔ تو میں نے اپنی رفتار کا مشاہدہ کرنا شروع کر دیا – وہ 90 کے پیٹے میں تھی۔ میں نے مزید زور لگایا، اور اسپیڈ گن – جی ہاں! اصلی تے وڈی والی اسپیڈ گن نے 94 سے 97 میل فی گھنٹہ کی رفتار دکھانا شروع کر دی۔ پھر میں نے 99 میل فی گھنٹہ کی رفتار کو جا لیا۔ اب میں خود سے کہنا شروع کر دیا کہ یہی موقع ہے، تم کر سکتے ہو، اپنی تمام تر قوت کے ساتھ دوڑو—اور ریکارڈ بنا ڈالو۔ وہ لمحہ، جس کا میں منتظر تھا، میں نے کچھ گہرے سانس لیے۔ کچھ سوچ بچار کے بعد اپنے رن اپ پر توجہ مرکوز کی کہ میں نے پچھلی گیندوں میں قدم کہاں رکھے، زقند کس طرح بھری۔ اندازہ ہوا کہ مسئلہ آخری چند گزوں میں ہے۔ اب میں نے پوری توجہ کے ساتھ آخر تک اپنی رفتار برقرار رکھنے کی کوشش کی، چھلانگ لگائی اور ہاتھ گھماتے ہوئے گیند کو چھوڑ دیا اور 161.3 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گیند پھینک ڈالی، میں 100 میل فی گھنٹے کا سنگِ میل عبور کر چکا تھا۔ ایک مرتبہ پھر! میں نے پویلین کی طرف دیکھا اور وہاں بیٹھے لوگوں کی طرف اشارہ کیا، دیکھو، میں نے یہ دوسری مرتبہ کر ڈالا ہے۔ اللہ کا واسطہ ہے اب تو اسے تسلیم کر لو۔ خیر، اس مرتبہ انہوں نے مان لیا۔