[آج کا دن] تاریخ کا بد ترین ورلڈ کپ فائنل

0 1,006

اگر اسے کرکٹ تاریخ کا ناکام ترین ورلڈ کپ اور بد ترین فائنل کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔ یہ 2007ء میں آج کا دن یعنی 28 اپریل تھا جب برج ٹاؤن، بارباڈوس میں ورلڈ کپ 2007ء کا فائنل کھیلا گیا تھا۔ ایک طرف مسلسل دو مرتبہ چیمپیئن بننے والا آسٹریلیا تھا تو دوسری جانب سری لنکا۔

فائنل سے پہلے ہی یہ ورلڈ کپ انتہائی مایوس کُن ثابت ہو چکا تھا۔ تقریباً تمام ہی میچز میں تماشائیوں کی تعداد بہت کم تھی، پھر بیشتر مقابلے یک طرفہ رہے اور جو کمی رہ گئی تھی وہ پاکستان اور بھارت کے پہلے ہی مرحلے میں اخراج سے پوری ہو گئی۔ پاکستان کی آئرلینڈ کے ہاتھوں شکست کے بعد کوچ باب وولمر کی موت نے بھی سنگین مسائل کھڑے کر دیے تھے۔

لیکن اس کے باوجود کسی نہ کسی طرح گرتے پڑتے یہ ورلڈ کپ فائنل تک پہنچ ہی گیا، جس میں آسٹریلیا نے ٹاس جیت کر پہلے بلے بازی کا فیصلہ کیا اور پھر وہی ہوا جو ورلڈ کپ 2003ء کے فائنل میں بھارت کے ساتھ ہوا تھا۔ آسٹریلیا نے ایک طوفانی آغاز لیا اور 23 ویں اوور میں پہلی وکٹ پر ہی 172 رنز جوڑ ڈالے۔ جی ہاں! بغیر کسی وکٹ کے نقصان کے۔

ایڈم گلکرسٹ کی 104 گیندوں پر 149 رنز کی اننگز کسی بھی ورلڈ کپ فائنل میں کھیلی گئی تاریخ کی عظیم ترین اننگز شمار ہونی چاہیے، جس میں 8 چھکے اور 13 چوکے شامل تھے۔ ان کا ہر شاٹ ثابت کر رہا تھا کہ دیگر میچز کی طرح فائنل بھی یک طرفہ ہوگا۔

بارش کی وجہ سے 38 اوورز فی اننگز تک محدود ہونے والے مقابلے میں آسٹریلیا نے 281 رنز بنائے اور سری لنکا کو ایک بہت ہی مشکل ہدف دے دیا۔

ورلڈ کپ 2007ء - فائنل

آسٹریلیا بمقابلہ سری لنکا

نتیجہ: آسٹریلیا 53 رنز سے جیت گیا

نتیجہ: آسٹریلیا 53 رنز سے جیت گیا

آسٹریلیا 🏆281-4
ایڈم گلکرسٹ149104
میتھیو ہیڈن3855
سری لنکا باؤلنگامرو
لاستھ ملنگا81492
دلہارا فرنانڈو80741
سری لنکا 215-8
سنتھ جے سوریا6367
کمار سنگاکارا5452
آسٹریلیا باؤلنگامرو
مائیکل کلارک50332
اینڈریو سائمنڈز2061

تعاقب میں اوپل تھارنگا کی وکٹ ابتدا ہی میں گر گئی لیکن کمار سنگاکارا اور سنتھ جے سوریا نے کافی حد تک معاملات سنبھال لیے۔ بیسویں اوور میں اسکور ایک وکٹ پر 123 رنز تک پہنچ چکا تھا اور امید کا دامن ابھی چھوٹا نہیں تھا۔ لیکن یہاں سنگاکارا کی اہم وکٹ گر گئی۔ وہ 52 گیندوں پر 54 رنز بنانے کے بعد وہ آؤٹ ہوئے اور کچھ ہی دیر میں جے سوریا کی 63 رنز کی اننگز بھی تمام ہوئی اور ساتھ ہی امیدیں بھی۔

میدان میں مصنوعی روشنیوں کا انتظام نہیں تھا اس لیے ابر آلود موسم میں قدرتی روشنی تیزی سے کم ہونے لگی۔ یہاں تک جب 33 واں اوور مکمل ہوا تو سری لنکا کو تین اوورز میں 63 رنز کی ضرورت تھی۔ یہاں سری لنکا نے کم روشنی کی وجہ سے کھیل روکنے کی پیشکش قبول کی جسے آسٹریلیا نے اپنی فتح سمجھا اور جشن منانا شروع کر دیا۔

کچھ ہی دیر میں امپائر علیم ڈار نے انہیں بتایا کہ نہیں، ابھی میچ ختم نہیں ہوا۔ پھر کچھ دیر بعد مکمل اندھیرے میں، جہاں تماشائیوں کو تو کُجا فیلڈرز کو بھی گیند نظر نہیں آ رہی تھی، آخری تین اوورز کا کھیل کھیلا گیا اور پھر آسٹریلیا کو اجازت ملی کہ اب آپ جشن منا سکتے ہیں، آپ جیت گئے ہیں!

یہ آسٹریلیا کا مسلسل تیسرا ورلڈ کپ تھا۔ وہ 1999ء میں پاکستان، 2003ء میں بھارت اور 2007ء میں سری لنکا کو شکست دے عالمی چیمپیئن بنا۔ ان میں سے 2003ء اور 2007ء کے ورلڈ کپ ٹورنامنٹسں تو وہ ایک میچ تک نہیں ہارا اور تمام مقابلے جیت کر دنیائے کرکٹ کا حکمران بنا۔

بہرحال، فائنل میں اتنی بد انتظامی کا نتیجہ میچ آفیشلز کے لیے اچھا نہیں نکلا۔ پانچ عہدیداروں پر سخت پابندیاں لگائی گئیں جن میں آن فیلڈ امپائر اسٹیو بکنر اور علیم ڈار بھی شامل تھے۔ ان کے علاوہ ریزرو امپائروں روڈی کوئرٹزن اور بلی باؤڈن اور میچ ریفری جیف کرو سب کو لمبے عرصے تک کسی بھی مقابلے میں اترنے سے روک دیا گیا۔

یوں 46 دن تک جاری رہنے والا یہ ٹورنامنٹ مایوس کُن انداز میں اپنے اختتام کو پہنچا۔ ہرشل گبز کے چھ گیندوں پر تاریخی چھ چھکے، مرلی دھرن کا بھارت کے خلاف جادوئی باؤلنگ اسپیل، لاستھ ملنگا کی چار گیندوں پر چار وکٹیں، مہیلا جے وردنے کی نیوزی لینڈ کے سیمی فائنل میں خلاف کمال سنچری اور آخر میں ایڈم گلکرسٹ کی فائنل میں طوفانی سنچری، یہ سب مل کر بھی اس ورلڈ کپ کو یادگار نہیں بنا سکے۔