[آج کا دن] جب 'پاکستان کا فضل' رخصت ہوا
اگر آپ سے پوچھا جائے کہ پاکستان کے کس کھلاڑی کی زندگی پر فلم لازماً بننی چاہیے؟ تو ہو سکتا ہے آپ کا جواب عمران خان ہو، یا پھر شاہد آفریدی، جاوید میانداد، وسیم اکرم، وقار یونس، کچھ بھی ہو سکتا ہے، لیکن اگر یہ سوال ہم سے کیا جائے تو ہمارا جواب صرف ایک ہی ہوگا، فضل محمود!
نیلی آنکھیں، گوری رنگت، کسرتی جسم، پھر سونے پر سہاگا یہ کہ صلاحیت بھی عروج پر، اپنے زمانے میں پاکستان میں فضل جیسا کوئی باؤلر نہیں تھا۔ پھر ان کی زندگی بھی ہنگامہ خیز تھی۔ اسلامیہ کالج کے دنوں سے لے کر تقسیمِ ہند کے ہنگاموں تک اور پھر لکھنؤ میں پاکستان کی اوّلین ٹیسٹ کامیابی سے اوول کی تاریخی فتح تک، یہ سب مل کر فضل محمود کو ایسا افسانوی کردار بناتے ہیں، جس کو ایک فلم کے ذریعے خراجِ تحسین پیش کرنا چاہیے۔
تقسیمِ ہند، جب فضل مرتے مرتے بچے
ویسے تو فضل کی داستان کافی پیچھے سے شروع ہوتی ہے لیکن ہم اسے شروع کرتے ہیں اگست 1947ء سے۔ وہ مہینہ جو ہندوستان اور پاکستان کے لیے بہت اہم تھا۔ ہندوستان کے طول و عرض سے لاکھوں مسلمان ہجرت کر کے پاکستان آ رہے تھے، لیکن 20 سالہ فضل محمود مخالف سمت میں محوِ سفر تھے۔ 15 اگست 1947ء پورے ہندوستان کے لیے تو دوسرے معنوں میں ایک اہم دن تھا، لیکن فضل کے لیے اس دن کی اہمیت کچھ اور تھی۔ ان کے انٹرنیشنل کرکٹ کیریئر کا انحصار اسی دن پر تھا کیونکہ وہ بھارت کے دورۂ آسٹریلیا کے لیے منتخب ہو سکتے تھے اور اسی کے لیے ان کے لیے ضروری تھا کہ اس دن پونے میں طلب کیے گئے قومی ٹیم کے ٹریننگ کیمپ میں لازماً شریک ہوں۔
فضل لاہور سے کراچی اور پھر یہاں سے بذریعہ ہوائی جہاز بمبئی پہنچے۔ حالات سے خراب سے خراب تر ہوتے جا رہے تھے۔ ٹریننگ کیا خاک ہوتی؟ چند دن وقت گزاری کے بعد بالآخر کیمپ ختم کر دیا گیا۔ سب بوجھل دلوں کے ساتھ اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوئے۔ فضل جب گھر سے نکلے تھے تو اندرونِ ملک ہی سفر کر رہے تھے، لیکن اب وہ دیارِ غیر میں تھے۔ ایک ایسے ملک میں جہاں اُن کی زندگی کو براہِ راست خطرہ لاحق تھا۔
پونے سے بمبئی کے سفر کے دوران شدت پسند ہندوؤں نے اس ریل گاڑی پر بھی حملہ کیا، جس میں فضل سوار تھے۔ اگر ساتھی کھلاڑی نہ ہوتے تویقیناً مارے جاتے۔ لیکن دیگر کھلاڑیوں نے اپنی جان پر کھیل کر فضل کو بچایا۔ کہا جاتا ہے کہ سی کے نائیڈو تو اپنے بلّے سے مسلح ہو کر حملہ آوروں کے سامنے ڈٹ گئے تھے۔
خیر، ڈرے سہمے فضل 9 ستمبر کو بمبئی پہنچے۔ ارادہ تو یہی تھا کہ بذریعہ دلّی لاہور جائیں گے لیکن سب نے خبردار کیا کہ وہاں سے گئے تو مارے جاؤ گے۔ اس لیے وہی راستہ اختیار کیا، جس سے آئے تھے۔ بمبئی سے کراچی کی فلائٹ پکڑی اور 13 ستمبر کو لاہور پہنچے، قیامِ پاکستان کے تقریباً ایک ماہ بعد۔ کچھ ہی دن بعد بھارتی کرکٹ ٹیم کے کپتان لالا امرناتھ کو پیغام بھیج دیا کہ وہ دورۂ آسٹریلیا پر نہیں جا سکتے۔ یعنی اب طے ہو چکا تھا کہ وہ بھارت کے لیے کرکٹ نہیں کھیل پائیں گے۔
زندگی کا اہم ترین فیصلہ
یہ فضل کی زندگی کا سب سے بڑا اور اہم فیصلہ تھا، اور بہت مشکل بھی۔ پاکستان میں کرکٹ کے دُور پرے تک کوئی آثار نہیں تھے۔ نومولود ریاست کے اپنے بڑے بڑے مسائل تھے، اُس وقت کرکٹ کو بھلا کون پوچھتا؟ پھر یہ بھی کوئی نہیں جانتا تھا کہ پاکستان کو ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے کی اجازت کب ملے گی؟ ملے گی بھی یا نہیں؟ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ در حقیقت لالا امرناتھ کو حتمی پیغام بھیجنا دراصل فضل محمود کا اپنے کیریئر کے 'ڈیتھ سرٹیفکیٹ' پر دستخط کرنے کے مترادف تھا۔ لیکن اس فیصلے کے پاکستان کرکٹ اور اس کی تاریخ پر بڑے گہرے اثرات مرتب ہوئے۔
ان مشکل دنوں میں فضل محمود کے والدین نے ان کی دل جوئی کے لیے کچھ اہم فیصلے کیے۔ مثلاً ایک تو ان کی شادی کا فیصلہ کیا گیا، جو معروف کرکٹر میاں سعید کی صاحبزادی ناز پرور سے ہوئی۔ پھر ان کی ملازمت کا انتظام بھی کیا گیا۔ سسر میاں سعید کے مشورے پر انہوں نے پولیس میں ملازمت اختیار کی اور 21 ستمبر کو یعنی بمبئی سے واپسی کے صرف ایک ہفتے بعد، پولیس ٹریننگ میں فضل محمود کا پہلا دن تھا۔
تربیت کے دوران فضل کا تبادلہ ہنگو کر دیا گیا، جہاں کوئی کرکٹ کلچر ہی نہیں تھا لیکن فضل کرکٹ کے بغیر کیسے رہ سکتے تھے؟ یہاں انہوں نے گھر کے پچھلے حصے کو تختہ مشق بنا لیا۔ ساتھ کھیلنے والا کوئی نہ تھا تو دیوار کو ہی حریف سمجھا۔ بتاتے تھے کہ وہ ایک دن میں 35، 35 اوورز بھی پھینک دیتے اور وہ بیچاری دیوار ان کی طوفانی گیندیں سہتی رہتی۔ پولیس کا ڈرل انسٹرکٹر بھی ان کا روٹین دیکھ کر حیران ہوتا تھا۔ اصل میں فضل اپنے زمانے کے fitness freak تھے۔ روزانہ دس میل دوڑتے، پانچ ہزار مرتبہ رسیاں کودتے اور گرمیوں میں کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کے سوئمنگ پول میں ستر، اسّی چکر لگاتے۔
کرکٹ میں دھماکا خیز آمد
پاکستان میں فرسٹ کلاس کرکٹ تو اسی سال شروع ہو گئی لیکن ملک کو ٹیسٹ اسٹیٹس پانچ سال کے طویل انتظار کے بعد بالآخر 1952ء میں ملا، جس کے بعد پاکستان نے پہلا دورہ ہی بھارت کا کیا۔ دلّی میں پہلا ٹیسٹ کھیلا گیا، پاکستان بُری طرح ہارا۔ ایک اننگز اور 70 رنز کی شکست نے پاکستان کرکٹ ٹیم کی اہلیت پر سوالیہ نشانات کھڑے کر دیے۔ لیکن لکھنؤ میں ٹیم پاکستان نے سارے داغ دھو دیے۔ پاکستان کی اس پہلی تاریخی فتح کے ہیرو تھے فضل محمود!
انہوں نے پہلی اننگز میں پانچ اور دوسری میں سات، یعنی کُل 12 وکٹیں حاصل کیں۔ نذر محمد کی سنچری اور بیٹ کیری بلّے بازوں میں سب سے نمایاں رہی اور پاکستان نے اننگز اور 43 رنز سے کامیابی حاصل کر کے اینٹ کا جواب پتھر سے دیا۔ پاکستان یہ سیریز تو نہیں جیت پایا لیکن اپنی اہلیت و صلاحیت ضرور ثابت کر دی تھی اور فضل کی آمد کا اعلان بھی ہو چکا تھا۔
اوول کا ہیرو
لیکن فضل محمود کو جس میچ نے شہرت کی بلندیوں پر پہنچایا، وہ 1954ء میں دورۂ انگلینڈ کا اوول ٹیسٹ تھا۔ یہ انٹرنیشنل کرکٹ میں پاکستان کا دوسرا دورہ تھا۔ چار ماہ طویل اس دورے میں پاکستان نے کُل چار ٹیسٹ میچز کھیلے۔ جب ٹیم اوول کے میدان میں اتری تو سیریز 1-0 سے انگلینڈ کے حق میں تھی۔ یہاں پاکستان نے تاریخی کامیابی حاصل کی اور اس کا سہرا صرف اور صرف فضل محمود کے سر رہا۔
پاکستان پہلے کھیلتے ہوئے صرف 133 رنز پر آل آؤٹ ہو گیا تھا۔ لیکن اس معمولی اسکور کے باوجود پاکستان پہلی اننگز میں برتری لینے میں کامیاب رہا، کیونکہ فضل کے سامنے انگلینڈ کی دال گل کر نہیں دی۔ انہوں نے صرف 53 رنز دے کر 6 وکٹیں حاصل کیں۔
ویسے پاکستان دوسری اننگز میں بھی صرف 164 رنز ہی بنا پایا یعنی انگلینڈ کو 168 رنز کا ہدف ملا جو لین ہٹن اور ڈینس کومپٹن جیسے کھلاڑیوں کے ہوتے ہوئے ہر گز مشکل نہیں تھا۔ 115 رنز تک انگلینڈ کے صرف تین ہی آؤٹ تھے لیکن پھر فضل کا جادو چل گیا۔ انگلینڈ صرف 143 رنز پر آؤٹ ہو گیا اور یوں پاکستان یہ میچ 24 رنز سے جیت گیا۔
پاکستان کا دورۂ انگلینڈ 1954ء - چوتھا ٹیسٹ
12 تا 17 اگست 1954ء
دی اوول، لندن، انگلینڈ
پاکستان 24 رنز سے جیت گیا
سیریز 1-1 سے برابر
پاکستان (پہلی اننگز) | 133 | ||||
عبد الحفیظ کاردار | 36 | - | فرینک ٹائسن | 4-35 | 13.4 |
امتیاز احمد | 23 | - | پیٹر لوڈر | 3-35 | 18 |
انگلینڈ (پہلی اننگز) | 130 | ||||
ڈینس کومپٹن | 53 | - | فضل محمود | 6-53 | 30 |
پیٹر مے | 26 | - | محمود حسین | 4-58 | 21.3 |
پاکستان (دوسری اننگز) | 164 | ||||
وزیر محمد | 42 | - | جونی وارڈل | 7-56 | 35 |
ذوالفقار احمد | 34 | - | جم میک کینن | 1-20 | 14 |
انگلینڈ (ہدف: 168 رنز) | 143 | ||||
پیٹر مے | 53 | - | فضل محمود | 6-46 | 30 |
ڈینس کومپٹن | 29 | - | شجاع الدین | 1-25 | 10 |
فضل نے دوسری اننگز میں بھی چھ وکٹیں حاصل کر کے میچ میں 12 شکار کیے اور یوں اوول کے ہیرو قرار پائے۔ اس کے بعد فضل نے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔
شاندار اعداد و شمار
فضل محمود نے پاکستان کے لیے کُل 34 ٹیسٹ میچز کھیلے اور 24.70 کے شاندار اوسط کے ساتھ 139 وکٹیں حاصل کیں۔ انہوں نے 13 مرتبہ اننگز میں پانچ اور 4 مرتبہ میچ میں 10 وکٹیں حاصل کرنے کا کارنامہ انجام دیا۔
فضل محمود کرکٹ تاریخ کے پہلے باؤلر تھے، جنہوں نے چار مختلف حریفوں کے خلاف میچ میں 12، یا زیادہ، وکٹیں لیں۔ انہوں نے اپنے زمانے کے تمام حریفوں بھارت، انگلینڈ، آسٹریلیا اور ویسٹ انڈیز کے خلاف ایسا کر کے دکھایا۔
فضل محمود کے کیریئر پر ایک نظر
فارمیٹ | میچز | وکٹیں | بہترین باؤلنگ | اوسط | 5و | 10و |
---|---|---|---|---|---|---|
ٹیسٹ | 34 | 139 | 7/42 | 24.70 | 13 | 4 |
فرسٹ کلاس | 112 | 466 | 9/43 | 18.96 | 38 | 8 |
پاکستان میں فاسٹ باؤلنگ کا مشعل بردار
درحقیقت یہ فضل محمود ہی تھے جنہوں نے اپنے کارناموں کی بدولت پاکستان میں فاسٹ باؤلنگ کا کلچر پیدا کیا۔ ان کے بعد یہ مشعل آگے بڑھتی ہی رہی اور ہر کچھ عرصے بعد پاکستان سے فاسٹ باؤلنگ میں ایک بڑا نام ابھرتا رہا۔ سرفراز نواز، عمران خان، وسیم اکرم، وقار یونس، شعیب اختر، محمد آصف، محمد عامر سے آج شاہین آفریدی تک، سب اسی مشعل کو آگے لے جا رہے ہیں اور آج بھی فاسٹ باؤلنگ پاکستان کا طرہ امتیاز ہے۔
فضل محمود 2005ء میں آج ہی کے دن یعنی 30 مئی کو لاہور میں انتقال کر گئے۔
پاکستان نے 2012ء میں انہیں اپنے قومی اعزاز 'ہلالِ امتیاز' سے نواز جبکہ آج بھی پاکستان سپر لیگ میں کسی سیزن میں سب سے زیادہ وکٹیں لینے والے کو باؤلر کو فضل محمود ٹرافی دی جاتی ہے۔
فضل محمود، مجید امجد اور "وہ آٹو گراف"
اوول میں تاریخی فتح کے بعد لندن میں پاکستانی سفارت خانے نے 18 اگست 1954ء کو کھلاڑیوں کے اعزاز میں ایک تقریب کا اہتمام کیا تھا۔ اس موقع پر ایک تصویر بہت مقبول ہوئی تھی، جس میں دو خواتین فضل محمود سے آٹو گراف لے رہی تھیں جبکہ انگلینڈ کے بیٹسمین ڈینس کومپٹن ان کے ساتھ کھڑے تھے۔ اس تصویر پر معروف شاعر مجید امجد نے ایک نظم تک لکھ ڈالی تھی، جس کا عنوان تھا 'آٹو گراف':
کھلاڑیوں کے خود نوشت دستخط کے واسطے
کتابچے لیے ہوئے
کھڑی ہیں منتظر حسین لڑکیاں
ڈھلکتے آنچلوں سے بے خبر حسین لڑکیاں
مہیب پھاٹکوں کے ڈولتے کواڑ چیخ اٹھے
ابل پڑے الجھتے بازوؤں چٹختی پسلیوں کے پر ہراس قافلے
گرے بڑھے مڑے بھنور ہجوم کے
کھڑی ہیں یہ بھی راستے پہ اک طرف
بیاض آرزو بکف
نظر نظر میں نارسا پرستشوں کی داستاں
لرز رہا ہے دم بہ دم
کمان ابرواں کا خم
کوئی جب ایک ناز بے نیاز سے
کتابچوں پہ کھنچتا چلا گیا
حروف کج تراش کی لکیر سی
تو تھم گئیں لبوں پہ مسکراہٹیں شریر سی
کسی عظیم شخصیت کی تمکنت
حنائی انگلیوں میں کانپتے ورق پہ جھک گئی
تو زرنگار پلوؤں سے جھانکتی کلائیوں کی تیز نبض رک گئی
وہ باؤلر ایک مہ وشوں کے جمگھٹوں میں گھر گیا
وہ صفحۂ بیاض پر بصد غرور کلک گوہریں پھری
حسین کھلکھلاہٹوں کے درمیاں وکٹ گری
میں اجنبی میں بے نشاں
میں پا بہ گل
نہ رفعت مقام ہے نہ شہرت دوام ہے
یہ لوح دل یہ لوح دم
نہ اس پہ کوئی نقش ہے نہ اس پہ کوئی نام ہے