[آج کا دن] مردِ بحران آصف اقبال کا یومِ پیدائش

0 1,002

وقت تو ایک مرہم ہے، گزرتا جائے تو پرانے زخم بھی مندمل ہو جاتے ہیں لیکن پاک-بھارت تعلقات وقت کے ساتھ ساتھ مزید بگڑتے جا رہے ہیں حالانکہ جب حالات واقعی خراب تھے، اُس زمانے میں ایسے ایسے واقعات پیش آتے تھے کہ آج سن کر حیرت ہوتی ہے۔ کرکٹ کی دنیا سے ایک ایسی ہی مثال 1961ء میں پاکستان کے دورۂ بھارت سے ملتی ہے۔

اس دورۂ بھارت میں 21 تا 23 جنوری 1961ء کو پاکستان نے حیدر آباد دکن میں ایک سہ روزہ میچ کھیلا، جس میں ایک 18 سالہ نوجوان ساؤتھ زون کی نمائندگی کر رہا تھا۔ اس نے میچ میں پاکستان کی کُل چھ وکٹیں حاصل کیں، جن میں دونوں اننگز میں جاوید برکی کو آؤٹ کرنا بھی شامل تھا۔

پاکستانی کپتان فضل محمود اس لڑکے کی کارکردگی سے بہت متاثر ہوئے اور رابطہ کیا معروف بھارتی کھلاڑی غلام احمد سے، جو اس نوجوان کے ماموں تھے۔ فضل نے انہیں مشورہ دیا کہ اس لڑکے کو پاکستان بھیجو، اس کا مستقبل پاکستان ہی میں ہے۔ یعنی تصور کیجیے کہ پاکستان کا کپتان بھارت کے ایک کھلاڑی کی کارکردگی سے متاثر ہو کر اسے پاکستان آمد کا مشورہ دیتا ہے اور وہ مشورہ قبول بھی کر لیا جاتا ہے۔ کچھ ہی عرصہ گزرا اور یہ نوجوان اپنے خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ کراچی آ گیا۔ پھر محض ساڑھے تین سال کے عرصے میں پاکستان کی قومی ٹیم تک بھی پہنچا اور ترقی کی منازل طے کرتا ہوا پاکستان کا کپتان تک بنا۔ یہی نوجوان تھا جسے آج دنیا آصف اقبال کے نام سے جانتی ہے۔

آصف اقبال 1943ء میں آج ہی کے دن یعنی 6 جون کو حیدر آباد دکن میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے گھرانے کے کئی لوگوں نے تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان ہجرت کر لی، لیکن آصف اقبال وہیں رہے، یہاں تک کہ فضل محمود کے مشورے اور اپنے ماموں غلام احمد کی ہدایت پر انہوں نے پاکستان کا رخ کیا، جہاں 1964ء سے 1980ء کے دوران انہوں نے 58 ٹیسٹ اور 10 ون ڈے انٹرنیشنل میچز میں پاکستان کی نمائندگی کی۔

آصف اقبال نے 99 ٹیسٹ اننگز میں 38.85 کے نمایاں اوسط سے 3,575 رنز بنائے،جن میں 11 سنچریاں اور 12 نصف سنچریاں بھی شامل تھیں۔ اس کے علاوہ اپنی میڈیم پَیس باؤلنگ کی بدولت 53 وکٹیں بھی حاصل کیں۔

آصف اقبال کے کیریئر پر ایک نظر

فارمیٹمیچزرنزبہترین اننگزاوسط10050وکٹیں
ٹیسٹ58357517538.85111253
ون ڈے انٹرنیشنل103306255.000516
فرسٹ کلاس4402332919637.2645118291
لسٹ اے259598910627.98333126

آصف اقبال نے اس زمانے میں کرکٹ کھیلی، جب ون ڈے انٹرنیشنل کرکٹ نے جنم لیا تھا۔ ان کے کیریئر میں صرف 10 ون ڈے ہیں، لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ان میں دو ورلڈ کپ ٹورنامنٹس شامل ہیں، 1975ء میں کھیلا گیا پہلا اور 1979ء کا دوسرا ورلڈ کپ اور دونوں میں آصف اقبال پاکستان کے کپتان تھے۔ اس کے علاوہ انہوں نے 6 ٹیسٹ میچز میں بھی پاکستان کی قیادت کی، وہ بھی اپنے کیریئر کے آخری ایام میں۔ کلکتہ کا وہ میدان جسے وہ نوجوانی میں حسرت سے دیکھتے تھے اور یہاں کھیلنے کے خواب دیکھا کرتے تھے، وہیں پر جنوری 1980ء میں آصف اقبال نے اپنے کیریئر کا آخری ٹیسٹ کھیلا۔

آصف اقبال کے کیریئر کا سب سے یادگار لمحہ 1967ء کے اوول ٹیسٹ میں آیا۔ پاکستان صرف 65 رنز پر آٹھ وکٹوں سے محروم ہو چکا تھا۔ تب آصف نے 146 رنز کی اننگز کھیلی، 21 چوکوں اور دو چھکوں کے ساتھ۔ پہلی ٹیسٹ سنچری اور وہ بھی ایسی؟ انہوں نے بڑے بڑوں کو حیران کر دیا۔ پھر انتخاب عالم کے ساتھ نویں وکٹ پر 190 رنز کی شراکت داری بھی، جو اگلے 31 سال تک ایک ریکارڈ بنی رہی، یہاں تک کہ 1998ء میں جنوبی افریقہ کے مارک باؤچر اور پیٹ سمکوکس نے پاکستان کے خلاف 195 رنز کی شراکت داری کر کے توڑ ڈالا۔ بہرحال، پاکستان اوول ٹیسٹ تو ہار گیا، لیکن اس اننگز نے آصف اقبال کو ایسا عروج بخشا کہ وہ کافی عرصے تک پاکستان کرکٹ میں چھائے رہے۔ ویسے 1967ء کا دورۂ انگلینڈ اُن کے لیے بہت اچھا رہا۔ انہوں نے پہلے ٹیسٹ میں لارڈز کے میدان پر 76 رنز بھی بنائے تھے۔

اسی اننگز کی وجہ سے 1968ء میں وزڈن نے انہیں سال کے بہترین کھلاڑیوں میں شمار کیا۔

آصف اقبال کو 'مردِ بحران' کہا جاتا تھا، کیونکہ انہوں نے ایک نہیں کئی مواقع پر پاکستان کرکٹ کو ایسی ہی بحرانی کیفیت میں بچایا تھا۔ مثلاً 1977ء میں آسٹریلیا کے خلاف ایڈیلیڈ ٹیسٹ میں، جہاں پہلی اننگز میں 182 رنز کے خسارے کے بعد آصف اقبال کی ناقابلِ شکست 152 رنز کی اننگز کی بدولت پاکستان آسٹریلیا کو ایک قابلِ ذکر ہدف دینے اور میچ بچانے میں کامیاب ہوا۔

آصف اقبال نے کاؤنٹی میں بھی بہت عرصے تک کرکٹ کھیلی۔ وہ 1968ء سے 1982ء تک کینٹ کی جانب سے کھیلے بلکہ درمیان میں کپتان بھی رہے اور ٹیم کو چیمپیئن بھی بنوایا۔