[آج کا دن] جب پاکستان چیمپیئنز کا چیمپیئن بنا

0 1,005

آج 18 جون ہے، وہی دن جب 2017ء میں پاکستان چیمپیئنز کا چیمپیئن بنا تھا۔ تاریخ کا سب سے بڑا پاک-بھارت مقابلہ، جسے اربوں نے دیکھا، جھلکیاں کروڑوں مرتبہ دیکھی گئی ہوں گی، اس میچ پر لاکھوں صفحات لکھے اور پڑھے بھی گئے ہیں اور زیادہ تر کا آغاز جسپریت بمراہ کی نو-بال سے ہوتا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس مقابلے کی شروعات دو سال پہلے ہو گئی تھی، جی ہاں! جب پاکستان گرتے پڑتے چیمپیئنز ٹرافی کے لیے کوالیفائی کرنے میں کامیاب ہوا تھا۔

چیمپیئنز ٹرافی، جیسا کہ نام ہی سے ظاہر ہے کہ کرکٹ کی چیمپیئن ٹیموں کا مقابلہ ہے۔ اسے وہی ٹیمیں کھیل سکتی ہیں جو ٹورنامنٹ سے دو سال پہلے، یا جس تاریخ کا بھی تعیّن بین الاقوامی کرکٹ کونسل کرے، پر ون ڈے کی رینکنگ میں ٹاپ 8 میں موجود ہوں۔

حقیقت یہ ہے کہ چیمپیئنز ٹرافی 2017ء سے دو سال پہلے یعنی 2015ء میں پاکستان ٹاپ 8 میں موجود نہیں تھا! جی ہاں! اُس سال سری لنکا کے دورے سے پہلے پاکستان ون ڈے کی درجہ بندی میں نویں نمبر پر تھا اور وہاں سیریز میں ‏3-2 سے کامیابی پاکستان کو آٹھویں نمبر پر لے آئی۔

اس سے بھی دلچسپ بات یہ ہے کہ ستمبر 2015ء میں پاکستان کی زمبابوے کے خلاف ایک سیریز بھی طے شدہ تھی۔ جبکہ چیمپیئنز ٹرافی 2017ء کے لیے کوالیفائی کرنے کے لیے یکم اکتوبر 2015ء کی رینکنگ استعمال کی جانی تھیں۔ اسے پاکستان کی "دُور اندیشی" کہہ لیں یا "خوف"، اس نے زمبابوے سے کہہ کر اس سیریز کو اکتوبر تک مؤخر کروا لیا، یعنی آئی سی سی کی "کٹ آف ڈیٹ" کے بعد۔ یہ "عقلمندی" کام آ گئی کیونکہ پاکستان سیریز تو جیتا لیکن ‏2-1 کے مارجن سے اور ایک مرتبہ پھر رینکنگ میں نویں نمبر پر چلا گیا۔

یوں یہ معمولی سی "ڈیڑھ ہوشیاری" پاکستان کے کام آ گئی اور اس نے چیمپیئنز ٹرافی کے لیے کوالیفائی کر لیا، آخری نمبر کی ٹیم کی حیثیت سے۔

شاید یہی وجہ ہے کہ جب چیمپیئنز ٹرافی 2017ء کے آغاز سے پہلے کمنٹیٹرز سے پوچھا گیا تھا کہ اُن کے خیال میں فائنل کون کھیلے گا اور چیمپیئن کون بنے گا؟ تو سوائے رمیز راجا کے کسی نے پاکستان کا نام نہیں لیا۔ ہمیں پورا اندازہ ہے کہ راجا صاحب نے بھی ایسا وطن کی محبت میں ہی کیا ہوگا۔

چلیں، اس رام کتھا کو مختصر کرتے ہوئے براہِ راست فائنل کے دن تک آتے ہیں، مہا مقابلے کے دن، جب تاریخ میں پہلی بار کسی آئی سی سی ٹورنامنٹ میں پاکستان-بھارت فائنل کھیلا گیا۔

پاک-بھارت مقابلے کے آغاز سے پہلے وہی برساتی مینڈک نکل آئے۔ "باپ باپ ہوتا ہے"، "کوئی فائدہ نہیں کھیلنے کا، واک اوور دے دو!"، "توڑ دیں گے"، "پھوڑ دیں گے"، "مروڑ دیں گے" اور ایسی ہی فضول باتیں۔ اور زمین آسمان ملا دینے والے یہ سب دعوے اُن کی طرف سے تھے، جنہوں نے میدان میں اُترنا بھی نہیں تھا۔

چیمپیئنز ٹرافی 2017ء - فائنل

پاکستان بمقابلہ بھارت

‏18 جون 2017ء

اوول، لندن، برطانیہ

نتیجہ: پاکستان 180 رنز سے جیت گیا

پاکستان 🏆338-4
فخر زمان114106
اظہر علی5971
بھارت باؤلنگامرو
کیدار جادھو30271
بھوونیشوَر کمار102441

بھارت158
ہاردِک پانڈیا7643
یووراج سنگھ2249
پاکستان باؤلنگامرو
محمد عامر62163
حسن علی6.31193

خیر، مقابلہ شروع ہوا اور چوتھے اوور کے آغاز میں وہ مرحلہ آ گیا، جسے آج تک یاد کیا جاتا ہے۔ وہ گیند کہ جس نے میچ کے رخ کا فیصلہ کر دیا، جسپریت بمراہ کے نو-بال پر فخر زمان کی وکٹ۔ پھر جو ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔

پاکستان نے فخر زمان کی طوفانی سنچری اور آخر میں محمد حفیظ کی طوفانی ففٹی کی بدولت 338 رنز بنائے اور تعاقب میں بھارت کی اننگز صرف 158 رنز پر ختم کر دی۔ فخر زمان کی بیٹنگ کے بعد ہمیں محمد عامر نے زندگی کی خوبصورت ترین یادوں میں سے ایک عطا کی۔ روہت شرما کو پہلے اوور میں ایل بی ڈبلیو، دوسرے میں ویراٹ کوہلی کو مسلسل دو گیندوں پر آؤٹ کرنا اور پھر اِن فارم شیکھر دھاون کو بھی، لگ رہا تھا ہم کوئی خواب دیکھ رہے ہیں۔

‏18 جون، انہونیوں کا دن

یہ جو 18 جون کا دن ہے نا؟ یہ ہے ہی انہونی کا دن، ناممکن کے ممکن بن جانے کا دن۔

یہی وہ دن ہے جب ورلڈ کپ 1975ء کا "وہ سیمی فائنل" ہوا تھا۔ انگلینڈ 37 رنز پر سات وکٹیں گنوا بیٹھا اور گرتا پڑتا 93 رنز پر پہنچا۔ جواب میں آسٹریلیا بھی 39 رنز پر چھ وکٹوں سے محروم ہوا اور بڑی مشکل سے جیت کر فائنل تک رسائی حاصل کی۔

پھر یہی وہ دن تھا جب 1983ء میں کپل دیو نے اپنی زندگی کی یادگار ترین اننگز کھیلی، جو فلم "83" کی وجہ سے آجکل ویسے ہی کافی مشہور ہو گئی ہے۔ یہ زمبابوے کے خلاف میچ تھا جس میں بھارت صرف 17 رنز پر پانچ وکٹیں گنوا بیٹھا تھا۔ پھر کپل نے صرف 138 گیندوں پر ناٹ آؤٹ 175 رنز بنائے، جس میں 16 چوکے اور چھ چھکے شامل تھے۔ آج کی کسی اننگز سے تقابل کرنا چاہیں تو سادہ سا فارمولا ہے: نئی اننگز کے رنز کو چار سے ضرب دے دیں، پھر کپل سے مقابلہ کیجیے گا۔

‏2005ء میں اسی دن بنگلہ دیش نے کارڈف میں آسٹریلیا کو شکست دی تھی۔ وہ مقابلہ جس میں بنگلہ دیش نے نوجوان محمد اشرفل کی سنچری اور آخری اوور میں آفتاب احمد کے چھکے کی بدولت یادگار کامیابی حاصل کی۔

صرف یہی نہیں بلکہ 2019ء میں بھی یہ دن عجیب ہی نظارہ دکھا گیا۔ دورِ جدید کے عظیم اسپنر راشد خان کو صرف 9 اوورز میں 110 رنز پڑ گئے، وہ بھی ورلڈ کپ کے مقابلے میں جہاں انگلینڈ نے افغانستان کو روند کر رکھ دیا۔