[آج کا دن] بڑے مقابلے میں بڑی شکست

0 777

‏20 جون 1999ء کا سورج طلوع ہوا، ایسا لگتا تھا پاکستان کرکٹ کے اِک نئے دَور کا آغاز ہونے والا ہے، لیکن غروبِ آفتاب تک یہ قومی کرکٹ تاریخ کا سیاہ ترین دن بن چکا تھا۔ پاکستان ناقابلِ یقین انداز میں ورلڈ کپ 1999ء کا فائنل ہار چکا تھا۔

پاکستان نے 'چھپے رستم' نیوزی لینڈ کو شکست دے کر فائنل تک رسائی حاصل کی تھی۔ گروپ مرحلے میں سرِ فہرست رہا بلکہ سپر سکسز میں بھی اپنے گروپ میں ٹاپ پر تھا۔ انفرادی طور پر سعید انور، وسیم اکرم، شعیب اختر اور ثقلین مشتاق سب عروج پر دکھائی دیتے تھے۔ جبکہ مقابلے میں آسٹریلیا کو دیکھیں تو وہ گرتے پڑتے بڑی مشکل سے سیمی فائنل تک پہنچا اور وہاں بھی جیتا نہیں بلکہ ٹورنامنٹ کے عجیب و غریب قانون کی بدولت فائنل تک رسائی پانے میں کامیاب ہوا۔ کیونکہ وہ سپر سکسز میں جنوبی افریقہ کو شکست دے چکا تھا، اس لیے سیمی فائنل ٹائی ہونے کے باوجود فائنل کھیلنے کا حقدار قرار پایا۔

پھر پاکستان گروپ مرحلے میں آسٹریلیا کو شکست دے چکا تھا اور یہی وجہ تھی پاکستانی یقین کیے بیٹھے تھے کہ فائنل تو ہم ہی جیتیں گے۔

لیکن تمام تر یقین، اعتماد، اعتبار ہوا میں اڑ گیا جب آج ہی کے دن یعنی 20 جون کو لارڈز میں پاکستان-آسٹریلیا ورلڈ کپ 1999ء کا فائنل ہوا، ایک ایسا فائنل جس کے بارے میں کوئی پاکستانی نہ بات کرنا چاہتا ہے، نہ اس بابت سننا چاہتا ہے، نہ اُن یادوں کو دہرانا چاہتا ہے اور نہ اس میچ کی جھلکیاں دیکھنا چاہتا ہے کیونکہ وہ میچ نہیں، پاکستانیوں کے لیے ایک ڈراؤنا خواب تھا۔

ورلڈ کپ 1999ء - فائنل

پاکستان بمقابلہ آسٹریلیا

‏20 جون 1999ء

لارڈز، لندن، برطانیہ

نتیجہ: آسٹریلیا 8 وکٹوں سے جیت گیا

پاکستان 132
اعجاز احمد2246
عبد الرزاق1751
آسٹریلیا باؤلنگامرو
شین وارن91334
گلین میک گرا93132

آسٹریلیا 🏆133-2
ایڈم گلکرسٹ5436
مارک واہ37*52
پاکستان باؤلنگامرو
ثقلین مشتاق4.10211
وسیم اکرم81411

اس میچ میں پاکستان نے صرف ٹاس ہی جیتا، باقی پورا دن ہارتے ہوئے ہی گزرا۔ مارک واہ کے ایک خوبصورت کیچ سے پاکستان کی داستان کا آغاز ہوا اور سعید انور کے کلین بولڈ کے ساتھ صرف 21 رنز پر دونوں اوپنرز آؤٹ ہو چکے تھے۔ اننگز محتاط ہو گئی، 20 ویں اوور تک اسکور صرف 68 رنز تک ہی پہنچا اور پھر عبد الرزاق کے ساتھ پاکستان تین کھلاڑیوں سے محروم ہو گیا۔

تب بھی پاکستانیوں کو امیدیں تھیں، ٹیم پر یقین تھا لیکن یہیں پر آسٹریلیا کے کپتان اسٹیو واہ نے شین وارن کو میدان میں اتار دیا، گویا میچ کا ہی خاتمہ کر دیا۔ وارن نے آتے ہی اعجاز احمد اور معین خان کو آؤٹ کر دیا اور پاکستان صرف 91رنز پر پانچ وکٹوں سے محروم ہو چکا تھا۔

ویسے پاکستان کے زوال میں کچھ کردار امپائروں کا بھی تھا۔ سب سے اہم بلے باز انضمام الحق کو وکٹوں کے پیچھے کیچ آؤٹ قرار دیا گیا جبکہ گیند ان کے بلّے کو چھوئی تک نہیں تھی۔ پھر آل راؤنڈرز بھی کچھ نہ کر سکے، شاہد آفریدی، وسیم اکرم اور اظہر محمود تینوں مایوس کُن انداز میں آؤٹ ہوئے۔ یہاں تک کہ گلین میک گرا نے ثقلین مشتاق کو آؤٹ کر کے اننگز کا خاتمہ کر دیا۔ پاکستان صرف 39 اوورز میں محض 132 رنز پر ڈھیر ہو چکا تھا۔

صرف 132 رنز! یعنی ورلڈ کپ فائنل کی تاریخ کا بد ترین اسکور۔ پاکستان کی جانب سے سب سے بڑی اننگز 'فاضل بھیا' نے کھیلی یعنی ایکسٹراز نے، جس سے پاکستان کو 25 رنز ملے جبکہ بلے بازوں میں اعجاز احمد کے رنز سب سے زیادہ 22 تھے۔

شکست یقینی تھی۔ بہت سے پاکستانیوں نے یقیناً ٹیلی وژن اور ریڈیو بند کر دیے ہوں گے لیکن کچھ لوگ اس امید پر پھر بھی اسکرین سے چپکے رہے کہ وسیم اکرم، وقار یونس، ثقلین مشتاق وغیرہ کچھ جادو دکھائیں گے لیکن پچ میں کوئی بارودی سرنگیں نہیں تھی۔ آسٹریلیا نے صرف 10 اوورز میں ہی 75 رنز بنا ڈالے، وہ بھی بغیر کسی وکٹ کے نقصان کے۔

ایڈم گلکرسٹ تو تھے ہی بڑے مقابلوں کے بڑے کھلاڑی۔ صرف 36 گیندوں پر 8 چوکوں اور ایک چھکے کی مدد سے 54 رنز بنا ڈالے اور آسٹریلیا نے 21 ویں اوور میں صرف دو وکٹوں پر ہدف حاصل کر لیا اور دوسری بار عالمی چیمپیئن بن گیا۔

کرکٹ میں آسٹریلیا کے دور کا آغاز ہو چکا تھا۔ اس نے بعد ازاں 2003ء اور 2007ء میں بھی ورلڈ کپ جیتے یعنی دو مرتبہ اپنے اعزاز کا کامیابی سے دفاع کیا، وہ بھی اس طرح کہ پاکستان تو کجا دنیا کی کوئی ٹیم اسے ایک میچ تک نہیں ہرا پائی۔

اس کے مقابلے میں پاکستان کا یہ حال یہ رہا کہ وہ اگلے دونوں ورلڈ کپ ٹورنامنٹس میں پہلے ہی راؤنڈ میں باہر ہوا۔ پھر اس شکست کے اثرات میدان سے باہر بھی پڑے۔ میچ فکسنگ کی تحقیقات کا آغاز ہوا اور جسٹس ملک محمد قیوم کی زیر صدارت ایک کمیشن قائم کیا گیا، جس نے فیصلہ دیا کہ وسیم اکرم اور ٹیم کے کئی اراکین کو آئندہ کوئی عہدہ نہ دینے کی سفارش کی اور سلیم ملک اور عطا الرحمٰن پر تاحیات پابندیاں لگائیں ۔

یوں اس مقابلے نے پاکستان پر آسٹریلیا کی وہی بالادستی قائم کر دی جو کبھی آسٹریلیشیا کپ 1986ء کے فائنل میں جاوید میانداد کے چھکے سے پاکستان نے بھارت پر حاصل کی تھی۔ جس طرح اس چھکے کے بعد بھارت دہائیوں تک پاکستان کے سامنے سر نہیں اٹھا پایا، پاکستان کا حال بھی دہائیوں تک ویسا ہی رہا، یہاں تک کہ دو مرتبہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے سیمی فائنل بھی آسٹریلیا سے ہارے۔ دیکھتے ہیں یہ سلسلہ کب تک جاری رہتا ہے؟