[آج کا دن] بھارت کو جیت کا جنون دینے والا دھونی

0 677

اگر یہ سوال کیا جائے کہ بھارت کی کرکٹ کو صرف دو حصوں میں تقسیم کریں، تو شاید بہت سے لوگ اسے آزادی سے پہلے اور اُس کے بعد کے دَور میں تقسیم کریں گے۔ کچھ ورلڈ کپ 1983ء کی ناقابلِ یقین فتح سے تاریخ کو دو حصوں میں بانٹیں گے لیکن حقیقت یہ ہے کہ بھارت کی کرکٹ ہسٹری کی تقسیم صرف ایک ہی طرح  جچے گی: مہندر سنگھ دھونی سے پہلے اور اُن کے بعد کی تاریخ۔ وہی دھونی، جن کا آج یومِ پیدائش ہے۔

یہ 2004ء کے آخری ایام تھے۔ بھارت بنگلہ دیش کے دورے پر تھا جس کا پہلا ون ڈے انٹرنیشنل چٹوگرام میں کھیلا گیا تھا اور یہیں پر 23 سالہ مہندر کو پہلی بار ملک کی نمائندگی کا موقع ملا۔ وہ اُس وقت میدان میں اترے جب بھارت کی پانچ وکٹیں 180 رنز پر گر چکی تھیں۔ فلمی داستان ہوتی تو ہیرو "آ گیا تے چھا گیا" ہو جاتا، لیکن یہ حقیقی دنیا تھی، دھونی آتے ہی رن آؤٹ ہو گئے اور یوں پہلے ہی میچ میں صفر کی ہزیمت کا نشانہ بنے۔

ایک غیر متاثر کن دورۂ بنگلہ دیش  کے بعد 2005ء کا موسمِ بہار دھونی کے لیے نوید لے کر آیا۔ پاکستان بھارت کے دورے پر تھا، جہاں اُس نے ون ڈے سیریز ‏4-2 کے نمایاں فرق سے جیتی۔ بھارت تو ہار گيا لیکن دھونی کی ایک اننگز نے دنیا کے دل جیت لیے۔  وشاکھاپٹنم میں کھیلے گئے دوسرے ون ڈے میں دھونی نے 155 گیندوں پر 15 چوکوں اور چار چھکوں سے 148 رنز کی اننگز کھیلی، ایک ایسی باری جو دھونی کا تعارف بن گئی۔

پھر ایم ایس نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ اسی سال سری لنکا کے خلاف جے پور میں 183 رنز کی باری کھیل گئے، ایک ایسی اننگز جو کئی ریکارڈ توڑ دیتی، بس 299 رنز کا ہدف پورا ہو گیا۔ 145 گیندیں، 15 چوکے، 10 چھکے اور ناقابلِ شکست 183 رنز، آج بھی کسی وکٹ کیپر بیٹسمین کی سب سے بڑی اننگز۔ یہ دھونی کی آمد کا حقیقی اعلان تھا۔

یہ وہ دور تھا جب بھارت کے پاس بڑے بڑے نام تھے: سچن تنڈولکر، سورَو گانگلی، راہُل ڈریوڈ اور وریندر سہواگ یعنی آج کی زبان میں کہیں تو تمام 'Fabulous 4' بھارت کے پاس تھے۔ لیکن پھر بھی اُس کا دامن خالی تھا۔ نہ ورلڈ کپ، نہ ٹیسٹ اور ون ڈے میں نمبر وَن رینکنگ اور نہ ہی ٹی ٹوئنٹی جیسی جدید کرکٹ میں کوئی کارنامہ۔ جو بھی ہوتا، محض انفرادی ریکارڈ تک ہی محدود رہتا لیکن یہ سب بدلنے والا تھا۔

انفرادی کارکردگی کی بدولت دھونی اپنے قدم مضبوط کر چکے تھے۔ اب اسے اُن کی خوش قسمتی کہیں یا بھارت کی کہ یہ قیادت کے بحران کا دَور تھا۔ سچن ایک ناکام کپتان ثابت ہو چکے تھے، گانگلی اپنے "دادا" والے اسٹائل سے باہر نکلنے کو تیار ہی نہیں تھے، ڈریوڈ کا زور نہیں چلتا تھا، انیل کمبلے سے ٹیم نہیں سنبھلتی تھی اور سہواگ کی غیر سنجیدگی ایسی تھی کہ وہ کپتان نہیں بن سکتے تھے۔ اس صورت حال میں نظرِ انتخاب پڑی ایم ایس دھونی پر۔ 2007ء میں ایک نوجوان کو دنیا کی مشکل ترین ٹیم کی قیادت سونپ دی گئی، ایک ایسا فیصلہ جس پر بہت ناک بھوں چڑھائی گئیں۔

لیکن دھونی نے ثابت کیا کہ وہی ٹیم انڈیا کا مستقبل ہیں بلکہ بھارت کا مستقبل اُن سے ہے۔ پہلے ہی سال انہوں نے بھارت کو ٹی ٹوئنٹی کا ورلڈ چیمپیئن بنا دیا، پھر 2009ء میں بھارت تاریخ میں پہلی بار ٹیسٹ میں عالمی نمبر ایک بنا، 2010ء میں ایشیا کپ جیتا، 2011ء میں عالمی چیمپیئن بن گیا اور 2013ء میں چیمپیئنز ٹرافی بھی جیت لی۔ دھونی نے جس چیز کو ہاتھ لگایا سونا بن گئی!

ویسے انفرادی سطح پر دیکھیں تو بھی دھونی کسی سے کم نہیں ہیں۔ انہوں نے 90 ٹیسٹ، 350 ون ڈے اور 98 ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچز کھیلے یعنی اُن کا کیریئر بہت طویل رہا۔

دھونی کے کیریئر پر ایک نظر

فارمیٹمیچزرنزبہترین اننگزاوسط10050کیچزاسٹمپنگز
ٹیسٹ90487622438.0963325638
ون ڈے انٹرنیشنل35010773183*50.571073321123
ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل9816175637.60025734
فرسٹ کلاس131703822436.8494736457
لسٹ اے42313353183*50.381787402141
ٹی ٹوئنٹی361716784*38.1202820784

آپ نے دیکھا؟ دھونی 10 ہزار ون ڈے رنز بنانے والے بلے بازوں میں سے ایک ہیں، اور یہ بھی کہ انہوں نے یہ رنز 50 سے زیادہ کے اوسط سے بنائے ہیں۔ ویراٹ کوہلی کے بعد 10 ہزار ون ڈے رنز بنانے والوں میں سب سے زیادہ اوسط دھونی ہی کا ہے۔ وہ اپنے کیریئر کے اختتام تک کس طرح کارکردگی پیش کرتے رہے، اِس سے اندازہ لگائیں کہ آخری سال یعنی 2019ء میں بھی دھونی کا اوسط 60 تھا۔ سونے پہ سہاگہ ہیں: 10 سنچریاں اور 73 نصف سنچریاں۔

دھونی اور ون ڈے کرکٹ، سال بہ سال

سالمیچزرنزبہترین اننگزاوسطاسٹرائیک ریٹسنچریاںنصف سنچریاں
‏2004ء319199.50135.7100
‏2005ء27895183*49.72103.1123
‏2006ء298219641.0592.9707
‏2007ء371103139*44.1289.6017
‏2008ء291097109*57.7382.2918
‏2009ء29119812470.4785.5729
‏2010ء18600101*46.1578.9413
‏2011ء2476491*58.7689.8806
‏‏2012ء16524113*65.5087.6213
‏2013ء26753139*62.7596.0415
‏2014ء1241879*52.2592.0705
‏2015ء2064092*45.7186.8304
‏2016ء132788027.8080.1101
‏2017ء2978813460.6184.7316
‏2018ء2027542*25.0071.4200
‏2019ء1860087*60.0082.3006

دھونی نے اپنے 350 میں سے 200 ون ڈے بحیثیتِ کپتان کھیلے، جن میں 53 سے زیادہ کے اوسط سے 6641 رنز بنائے۔ یعنی کپتانی بھی انہیں خوب راس آئی، رنز کے معاملے میں بھی اور ایوریج میں بھی۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ویراٹ کوہلی اور سچن تنڈولکر انفرادی لحاظ سے دھونی سے آگے ہوں گے، لیکن دھونی نے بھارت کو جیتنا سکھایا، جیت کا جنون دیا، وہ جو ٹیم انڈیا کو کبھی کوئی نہیں دے پایا تھا۔  لیکن یہ کوئی دیومالائی داستان نہیں۔ زندگی وقت کے الٹ پھیر کا نام ہے۔ دھونی نے بھی نشیب و فراز  دیکھے۔ مثلاً ورلڈ کپ 2011ء کی تاریخی کامیابی کے بعد بھارت کے لیے بیرونِ ملک ٹیسٹ میچز جیتنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہو گیا۔ یہی نہیں بلکہ 2012ء میں تو اپنی ہی سرزمین پر انگلینڈ سے ٹیسٹ سیریز ہار گیا۔ ان حالات میں آگے بڑھنے کی حکمتِ عملی طے کرنا ہی قائد کا کام ہے اور دھونی نے ایسا کیا اور پھر بھارت نے کئی کارنامے انجام دیے۔ البتہ 2014ء میں دھونی نے اچانک ٹیسٹ کرکٹ چھوڑنے کا اعلان کر دیا۔

پھر 2015ء میں ورلڈ کپ سیمی فائنل میں آسٹریلیا کے ہاتھوں شکست، 2016ء میں ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں بھی سیمی فائنل تک محدود رہ جانا، یہ بڑے المیے تھے۔

‏2016ء دھونی کے لیے واقعی مشکل سال رہا۔ اسی چنئی سپر کنگز کو اسپاٹ فکسنگ تنازع پر دو سیزنز کے لیے معطل کر دیا گیا۔ لیکن 2018ء میں جیسے ہی ٹیم انڈین پریمیئر لیگ میں واپس آئی، پہلے ہی سال ناقابلِ یقین انداز میں تیسرا ٹائٹل جیتا، دھونی کی کپتانی میں۔

دھونی ورلڈ کپ 2019ء تک کھیلے، لیکن کپتانی وہ 2017ء ہی میں چھوڑ چکے تھے۔ بالآخر نیوزی لینڈ کے خلاف سیمی فائنل میں کروڑوں دلوں کو توڑنے والے اس رن آؤٹ کے ساتھ دنیائے کرکٹ کو خیر باد کہہ گئے۔