پاکستان فاتح گال بن گیا، تاریخ قدموں تلے روند دی

0 1,001

پاکستان نے عبد اللہ شفیق کی ناقابلِ یقین اننگز کی بدولت گال ٹیسٹ 4 وکٹوں سے جیت لیا ہے۔ وہ بھی 342 رنز کا ریکارڈ ہدف حاصل کر کے، ایسا ہدف تو گال کے میدان پر کبھی کوئی ٹیم حاصل نہیں کر پائی۔ یہ ممکن ہوا عبد اللہ شفیق کے ناٹ آؤٹ 160 رنز کی بدولت جنہوں نے 408 گیندوں کا سامنا کرتے ہوئے ریکارڈ بُک میں کئی جگہ اپنا نام لکھوایا اور پھر فاتحانہ چوکے کے ساتھ پاکستان کو ایک یادگار فتح دلائی۔

پاکستان کا دورۂ سری لنکا 2022ء- پہلا ٹیسٹ

‏‏16 تا 20 جولائی 2022ء

گال انٹرنیشنل اسٹیڈیم، گال، سری لنکا

پاکستان 4 وکٹوں سے جیت گیا

سری لنکا (پہلی اننگز) 222
دنیش چندیمل76115شاہین آفریدی4-5814.1
مہیش تھیکشانا3865مچل سویپسن2-2312
پاکستان (پہلی اننگز) 218
بابر اعظم119244پرباتھ جے سوریا5-8239
محمد رضوان1935رمیش مینڈس2-1813
سری لنکا (دوسری اننگز) 337
دنیش چندیمل94*139محمد نواز5-8828
کوسال مینڈس76126یاسر شاہ3-12229
پاکستان (ہدف: 342 رنز) 344-6
عبد اللہ شفیق160*408پرباتھ جے سوریا4-13556.2
بابر اعظم55104دھاننجیا ڈی سلوا1-3315

گال میں سری لنکا نے ٹاس جیت کر پہلے خود بیٹنگ کرنے کا فیصلہ کیا اور شاہین آفریدی اینڈ کمپنی کی عمدہ باؤلنگ کی بدولت 222 رنز تک محدود ہو گیا۔ ویسے تو پاکستان صرف 103 رنز پر سری لنکا کی چھ وکٹیں حاصل کر چکا تھا لیکن یہاں دنیش چندیمل کے 76 اور آخر میں مہیش تھیکشانا کے 38 رنز نے کام دکھا دیا اور سری لنکا کو ڈبل نیلسن یعنی 222 رنز تک پہنچا دیا۔ آخری چار وکٹوں پر اسکور میں کُل 119 رنز کا اضافہ کیا۔

پہلے ہی دن سے وکٹ میں اسپنرز کے لیے اتنی مدد نظر آ رہی تھی کہ بلے بازوں کو دیکھ کر خوف آنے لگے۔ یہ بعد میں ثابت بھی ہوا جب پاکستان بیٹنگ کرنے آیا، جب اس کا حال سری لنکا سے بھی بُرا ہوا۔ صرف 85 رنز تک پہنچتے پہنچتے 7 وکٹیں گر چکی تھیں۔ لگ رہا تھا پاکستان کا حشر آسٹریلیا سے مختلف نہیں ہوگا۔

یہاں پر بابر اعظم نے 119 رنز کی کیپٹن اننگز کھیلی۔ اس اننگز کی اہمیت کا اندازہ پاکستان کی باری میں کوئی دوسرا بلے باز 20 رنز تک بھی نہیں پہنچ پایا تھا۔ پاکستان 218 رنز تک پہنچا یعنی تقریباً سری لنکا کے اسکور کو پا لیا۔

نوجوان لنکن اسپنر پرباتھ جے سوریا نے ایک مرتبہ پھر اپنی اہمیت ثابت کی۔ انہوں نے 82 رنز دے کر پاکستان کے پانچ کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔

دوسری اننگز میں پاکستانی باؤلرز نے اوپنرز کو تو جلد ہی قابو کر لیا لیکن پھر کوسال مینڈس اور دنیش چندیمل نے اُن کا کڑا امتحان لے لیا۔ کوسال مینڈس اور پھر دنیش چندیمل نے تو پاکستان کو مقابلے سے بالکل باہر ہی کر دیا۔ چندیمل نے ناٹ آؤٹ 94 رنز بنائے جبکہ مینڈس نے 76 رنز اسکور کیے، جن کی بدولت سری لنکا 337 رنز تک جا پہنچا۔

محمد نواز نے 88 رنز دے کر پانچ وکٹوں کی کیریئر بیسٹ پرفارمنس دی۔ یاسر شاہ نے بھی تین وکٹیں حاصل کیں، جن میں کوسال مینڈس کو کلین بولڈ کرنے والی وہ گیند بھی شامل تھی، جسے 'بال آف دی سنچری' کہا جا رہا ہے۔

میچ میں چھ وکٹوں کے ساتھ یاسر شاہ عظیم اسپنر عبد القادر سے آگے نکل گئے ہیں اور سب سے زیادہ وکٹیں لینے والے پاکستانی اسپنرز میں دنیش کنیریا کے بعد دوسرے نمبر پر آ گئے ہیں۔

بہرحال، پاکستان کو ملا 342 رنز کا ہدف۔ جیسی پچ تھی، اور جو گال کی تاریخ ہے، اس کو دیکھتے ہوئے تو یہ کافی سے زیادہ رنز تھے۔ تقریباً دو دن کا کھیل باقی تھا یعنی میچ کو ڈرا کرنا بھی تقریباً ناممکنات میں سے تھا۔

پاکستان نے سیدھا راستہ لینے کا فیصلہ کیا یعنی اپنی نظریں فتح پر جمائیں اور سری لنکن اسپنرز سے جو براہِ راست خطرہ لاحق تھا، اس کا سینہ تان کا مقابلہ کیا۔ امام الحق اور عبد اللہ شفیق نے ابتدائی جھجک کے بعد 87 رنز کی اوپننگ شراکت داری کی۔ یہ بنیاد اور مضبوط ہو سکتی تھی اگر امام الحق حاضر دماغی کا ثبوت دیتے۔

رمیش مینڈس کی ایک گیند کو کھیلنے میں ناکام ہوئے، گیند وکٹ کیپر کے ہاتھوں میں گئی، جو موقع کی تاک میں تھے اور یہ موقع امام کی غائب دماغی نے فراہم کیا۔ لمحے بھر کے لیے ان کا بایاں پیر فضا میں اٹھا اور نیروشان ڈِکویلا نے اسٹمپس اڑا دیں۔ طویل ریویو کے بعد بالآخر امپائر نے امام کو آؤٹ قرار دیا۔

اظہر علی کی ناکامیوں کا سلسلہ مزید دراز ہوا، جو دوسری اننگز میں بھی سنگل فگرز میں آؤٹ ہوئے۔ یعنی جو ایڈوانٹیج پاکستان کو حاصل ہوا تھا، وہ 104 رنز پر دو وکٹیں گرنے سے ختم ہو گیا۔

یہاں عبد اللہ شفیق اور کپتان بابر اعظم نے میدان سنبھالا اور اسکور کو 205 رنز تک لے گئے۔ یعنی نئی امید پیدا کر دی۔ کپتان نے مسلسل پانچویں ففٹی پلس اننگز کھیلی۔ 55 رنز پر پرباتھ جے سوریا کی ایک خوبصورت گیند ان کا خاتمہ کر گئی۔ یہ لیگ اسٹمپ سے کہیں باہر پڑنے والی گیند تھی، جسے بابر نے چھوڑا اور گیند پیچھے سے اسٹمپس میں گھس گئی۔

‏205 رنز پر بابر کے آؤٹ ہونے کے بعد اب ذمہ داری عبد اللہ اور محمد رضوان کے کاندھوں پر تھی۔ دونوں نے چوتھے روز پاکستان کو مزید کسی نقصان سے بچایا اور کسی نہ کسی طرح بچتے بچاتے اسکور کو 222 رنز تک پہنچا دیا۔

اب آخری روز 120 رنز کی ضرورت تھی اور سات وکٹیں باقی تھیں۔ بظاہر تو بہت آسان لگ رہا تھا لیکن حقیقتاً بہت مشکل۔ عبد اللہ-رضوان شراکت داری نے مزید 54 رنز کا اضافہ کیا۔ لگ رہا تھا کہ پاکستان اب مقابلے سے باہر نہیں ہو سکتا۔ لیکن رضوان کی باری آ گئی، جو کئی مرتبہ بچنے کے بعد بالآخر 40 رنز پر جے سوریا کا شکار بن گئے۔

پہلا ٹیسٹ کھیلنے والے آغا سلمان موقع کی نزاکت کو شاید سمجھ نہیں پائے۔ ایک چوکا بھی لگایا لیکن رنگ جمانے میں ناکام رہے اور 12 رنز پر وہ بھی جے سوریا کو وکٹ دے گئے۔

پاکستان اب بھی ہدف سے 44 رنز دور تھا۔ یہاں آسمان پر اٹھتے ہوئے بادلوں کو دیکھ کر جلد از جلد زیادہ سے زیادہ رنز بنانے کے لیے حسن علی کو پہلے بھیج دیا گیا۔ وہ آئے، چوکا لگایا اور وکٹ دے گئے۔ ایک چوکا لگانے کے فوراً بعد چھکے کی کوشش میں وہ کیچ آؤٹ ہو گئے اور یوں 303 رنز پر پاکستان کی چھٹی وکٹ بھی گر گئی۔

تب آل راؤنڈر محمد نواز میدان میں اترے، کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان کی آخری مستند بیٹنگ جوڑی کریز پر تھی۔ دونوں نے مزید کوئی ایڈونچر نہیں کیا۔ بادل آئے، بارش بھی ہوئی، کافی دیر تک کھیل رکا بھی رہا، لیکن ان کی 41 رنز کی شراکت داری بالآخر فتح پر ہی جا کر مکمل ہوئی۔

عبد اللہ شفیق 408 گیندوں پر 160 رنز بنا کر فاتحانہ میدان سے واپس آئے جبکہ نواز 19 رنز کے ساتھ ناٹ آؤٹ رہے۔

پاکستان نے گال میں ایسی کامیابی حاصل کی ہے، جو مدتوں یاد رکھی جائے گی۔ اس کے ساتھ ہی سیریز میں پاکستان ‏1-0 کی ناقابلِ شکست برتری حاصل ہو گئی ہے۔ سیریز کا دوسرا ٹیسٹ جو کولمبو میں طے شدہ تھا، اب گال ہی میں کھیلا جائے گا، جہاں محض ڈرا بھی پاکستان کی کامیابی کے لیے کافی ہوگا۔