اوول سے اوول تک: پاکستان، تاریخ کے بہترین سے بدترین دن تک

0 800

انگلینڈ کا تاریخی میدان اوول پاکستان کے لیے بہترین یادیں بھی رکھتا ہے اور بد ترین بھی۔ ابھی چند دن پہلے ہی 17 اگست کو ہم نے 1954ء میں یہیں پر پاکستان کی پہلی کامیابی کی یاد منائی تھی اور آج یعنی 20 اگست وہ دن ہے جب پاکستان نے یہیں پر کرکٹ تاریخ کے بد ترین دنوں میں ایک دیکھا۔

‏2006ء میں آج ہی کے دن ٹیسٹ کرکٹ کی طویل تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ کسی ٹیم نے کھیلنے سے انکار کر دیا ہو، اور دوسری ٹیم کو کامیاب قرار دے دیا گیا ہو۔ جی ہاں! ایسا پاکستان کے خلاف ہی ہوا جس نے بدنامِ زمانہ امپائر ڈیرل ہیئر کے بال ٹیمپرنگ کے الزام کے بعد میچ کھیلنے سے انکار کر دیا تھا۔

پاکستان کا دورۂ انگلینڈ ‏2006ء - چوتھا ٹیسٹ

‏17 تا 21 اگست 2006ء

دی اوول، لندن، برطانیہ

انگلینڈ کو فاتح قرار دے دیا گیا

انگلینڈ (پہلی اننگز)173
ایلسٹر کک4069عمر گل4-4615.2
اینڈریو اسٹراس3857محمد آصف4-5619
پاکستان (پہلی اننگز) 504
محمد یوسف128236اسٹیو ہارمیسن4-12530.5
محمد حفیظ95178میتھیو ہوگرڈ3-12434
انگلینڈ (دوسری اننگز)298-4
کیون پیٹرسن96114شاہد نذیر1-268
ایلسٹر کک83146عمر گل1-7014

پاکستان چار ٹیسٹ میچز کی سیریز کھیلنے کے لیے انگلینڈ آیا تھا۔ تین مقابلوں میں ‏2-0 کے خسارے کے بعد سیریز جیتنے کے امکانات تو ختم ہو چکے تھے لیکن آخری ٹیسٹ میں کامیابی کچھ حوصلے ضرور بڑھاتی۔ تب اوول میں یہ مقابلہ ہوا، جس میں ایک اینڈ سے آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والے ڈیرل ہیئر نے امپائرنگ کے فرائض سر انجام دیے اور دوسرے اینڈ پر بلی ڈاکٹروو، جی ہاں! وہی امپائر جنہوں نے بدنامِ زمانہ پاک-ویسٹ انڈیز اینٹیگا ٹیسٹ 2000ء میں "کار ہائے نمایاں" انجام دیے تھے۔

ڈاکٹروو تو چلیں حب الوطنی میں کے مارے ہوئے تھے لیکن ہیئر تو نسل پرستی اور غیر سفید فام کھلاڑیوں پر بے جا سختی کی وجہ سے بھی بدنام ہوئے۔ اس میچ میں بھی انہوں نے کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ چوتھے دن چائے کے وقفے سے کچھ پہلے انہوں نے پاکستانی باؤلرز پر ٹیمپرنگ کا الزام لگا کر انگلینڈ کو پنالٹی کے پانچ رنز دے دیے۔

کپتان انضمام الحق پہلے تو حیران رہ گئے کہ یہ آخر ہو کیا رہا ہے؟ لیکن کچھ دیر میں جب وقفہ ہوا تو پاکستان نے فیصلہ کر لیا کہ وہ اس حرکت پر خاموش نہیں بیٹھے گا اور میدان میں دوبارہ اترنے سے انکار کر دیا۔ کافی دیر تک انتظامیہ انتظار کرتی رہی، جی ہاں! امپائر ڈیرل ہیئر بھی۔ جب کوچ باب وولمر کے اصرار پر ٹیم پاکستان دوبارہ میدان میں آئی، تب امپائروں نے میچ دوبارہ پھر کروانے سے انکار کر دیا اور انگلینڈ کو فاتح قرار دے دیا۔

یوں سیریز بہت بدمزگی کے ساتھ ختم ہوئی۔ لیکن معاملہ تھمنے والا تھا نہیں، آگے بڑھتے بڑھتے بالآخر انٹرنیشنل کرکٹ کونسل تک جا پہنچا۔ تحقیقات ہوئیں، پاکستان کو بال ٹیمپرنگ کے الزام سے تو بری قرار دے دیا گیا لیکن انضمام الحق پر چار میچز کی پابندی لگی۔ لیکن میچ کا نتیجہ کیا ہوگا؟ یہ معاملہ لٹک گیا۔

حقیقت یہ ہے کہ جہاں امپائروں کا رویّہ غیر ذمہ دارانہ تھا، وہیں آئی سی سی بھی پیچھے نہیں رہا۔ اس نے دو سال بعد فیصلہ دیا اور میچ کو بے نتیجہ قرار دیا لیکن ایک سال بعد غالباً انگلینڈ کے دباؤ پر اس سے پھر اپنے فیصلے کو بدل دیا اور امپائروں والا فیصلہ بحال کر دیا یعنی انگلینڈ کامیاب قرار پایا۔

یعنی حیرت کی بات ہے کہ جب پاکستان پر بال ٹیمپرنگ ثابت ہی نہیں ہوئی تو اس من گھڑت الزام کی بنیاد پر امپائروں کو کوئی سزا کیوں نہیں دی گئی؟ پھر اُن کا اتنا غیر ذمہ دارانہ فیصلہ آخر کیسے مان لیا جائے اور اس کی بنیاد پر ایک ٹیم کو شکست کی سزا بھی دی جائے۔

یوں انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے گویا ڈیرل ہیئر کے فیصلے کی تائید کر دی، لیکن اسے بالکل اندازہ نہیں تھا کہ ہیئر کس مٹی کے بنے ہوئے ہیں۔ اب انہوں نے ایک ای میل کے ذریعے آئی سی سی سے مطالبہ کر دیا کہ وہ ایلیٹ امپائرز پینل سے استعفیٰ دے دیں گے، لیکن پانچ لاکھ ڈالرز دیے جائیں تب۔ اس حرکت پر تو آئی سی سی نے بھی ہاتھ اٹھا لیے اور ہیئر پر پابندی عائد کر دی۔

اب ہیئر نے آئی سی سی پر مقدمہ کر دیا اور اب اپنے ساتھی امپائر بلی ڈاکٹروو کو بھی گھسیٹنے کی کوشش کی۔ ان کا کہنا تھا کہ آخر تمام تر الزامات مجھ پر ہی کیوں؟ ڈاکٹروو کو کیوں کچھ نہیں کہا جا رہا؟

بہرحال، انہوں نے ہیئر نے بعد ازاں یہ مقدمہ واپس لے لیا جس پر آئی سی سی نے انہیں ایلیٹ پینل میں بحال بھی کر دیا لیکن معاملات اتنے بگڑ چکے تھے کہ وہ صرف تین مہینے ہی مزید امپائرنگ کر سکے اور جون 2008ء میں نیوزی لینڈ-انگلینڈ ٹیسٹ ان کا آخری انٹرنیشنل میچ ثابت ہوا۔

یہ ہیئر کے پورے کیریئر کی محض ایک جھلک ہے۔ ان کا تو پورا کرکٹ دور ہی تنازعات سے بھرپور تھا۔ 78 ٹیسٹ اور 135 ایک روزہ میچز کے طویل کیریئر میں انہوں نے ایک سے بڑھ کر ایک ہنگامہ کھڑا کیا۔ اپنے پہلے ہی ٹیسٹ میں انہوں نے بھارت کے 8 کھلاڑیوں کو ایل بی ڈبلیو آؤٹ دیا تھا اور جب بھارت کی باؤلنگ آئی تھی ان کے باؤلرز کی اپیلوں پر صرف دو آؤٹ دیے، باقی تمام اپیلیں مسترد کر دیں۔ یہی "حب الوطنی" تھی کہ جس کی وجہ سے ہیئر کو اگلے چند سالوں میں آسٹریلیا نے اپنے 44 ٹیسٹ اور 75 ون ڈے میچز میں امپائرنگ دی، یہاں تک کہ آئی سی سی نے غیر جانب دار امپائر لازم کر دیے۔

‏1995ء کے باکسنگ ڈے ٹیسٹ میں ڈیرل ہیئر نے تاریخ کا سب سے بڑا تنازع کھڑا کیا تھا۔ انہوں نے سری لنکا کے نوجوان باؤلر مرلی دھرن کے باؤلنگ ایکشن پر سوال اٹھایا اور اسے مشکوک قرار دیتے ہوئے ان کی کئی گیندوں پر نو بال قرار دیا۔ پھر باوجود اس کے کہ مرلی دھرن کا باؤلنگ ایکشن کلیئر ہوا، 1999ء میں انہوں نے ایک مرتبہ پھر یہی حرکت دہرائی۔

ہیئر کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ آئی سی سی کے ایک اجلاس میں 10 ٹیسٹ ملکوں میں سے 7 نے ان کے خلاف رائے دی جبکہ صرف تین ملک ایسے تھے جو اُن کے حق میں تھے، خود اندازہ لگا لیں وہ کون سے ممالک ہوں گے؟ جی ہاں! آسٹریلیا، انگلینڈ اور نیوزی لینڈ۔

تو چاہے اوول تناز‏ع نے ہیئر کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا، لیکن اس نے پاکستان کرکٹ کی توانائی بھی کھیل کے بجائے دیگر سمتوں میں ضائع کر دی۔ انگلینڈ اور آسٹریلیا جیسے اہم ملکوں کے ساتھ تعلقات خراب ہوئے، جو کسر رہ گئی تھی وہ 2008ء میں ممبئی حملوں کے بعد پاک-بھارت کرکٹ تعلقات کے خاتمے اور پھر 2009ء میں لاہور میں سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر دہشت گردوں کے حملے سے پوری ہو گئی۔