پاکستان اور بھارت عرب امارات میں، ایک تاریخ، ایک عہد

0 945

بالآخر وہ دن آ پہنچا جس کا ہمیں انتظار تھا۔ پاکستان اور بھارت اتوار 28 اگست کو دبئی کے "رِنگ آف فائر" میں مقابل ہوں گے۔ یہ متحدہ عرب امارات کی سرزمین پر دونوں ٹیموں کا 30 واں مقابلہ ہوگا اور شاید آپ کے لیے حیرت بات ہو کہ آج تک کھیلے گئے میچز میں پاکستان کا پلڑا بہت بہت بھاری ہے۔

پاکستان اور بھارت، عرب امارات میں

بمقابلہمیچزفتوحاتشکستیںبہترین اننگزبدترین اننگز
پاکستان بھارت2920927987

متحدہ عرب امارات میں پاکستان اور بھارت آج تک 29 بار مقابل آئے ہیں اور ان میں سے 20 میچز میں پاکستان نے کامیابی حاصل کی ہے۔ حالانکہ بھارت کے خلاف پاکستان امارات میں آخری 10 میں سے صرف 4 میچز جیتا ہے، اس کے باوجود اتنی بڑی برتری؟ حیرت ہوتی ہے اور ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان نے 90ء کی دہائی میں بھارت کے خلاف کس تواتر سے فتوحات حاصل کی تھیں۔

شارجہ، دبئی اور ابوظبی میں دونوں روایتی حریفوں کے مابین بہت سے یادگار میچز کھیلے گئے ہیں۔ پہلا مقابلہ اپریل 1984ء میں ایشیا کپ ہی میں کھیلا گیا تھا، جس میں بھارت نے کامیابی حاصل کی تھی بلکہ اس کے بعد 1985ء میں روتھ مینز فور نیشنز کپ میں تو پاکستان صرف 126 رنز کے تعاقب میں 87 رنز پر ڈھیر ہو گیا تھا۔ یوں اگلے میچ میں انگلینڈ کے خلاف کامیابی بھی پاکستان کو فائنل تک نہیں پہنچا سکی، جہاں بھارت اور آسٹریلیا مقابل ہوئے اور ٹرافی کپل دیو کی ورلڈ چیمپیئن بھارتی ٹیم کو ملی۔

پاکستان نے متحدہ عرب امارات میں بھارت کے خلاف پہلی کامیابی نومبر 1985ء میں شارجہ کپ میں حاصل کی تھی۔ لیکن اس سے بڑی، بہت بڑی فتح اپریل 1986ء میں پائی۔ ایک ایسا مقابلہ جس نے تاریخ کا دھارا ہی بدل دیا۔

یہ شارجہ میں کھیلا گیا آسٹریلیشیا کپ وہ میچ تھا جس میں جاوید میانداد نے آخری گیند پر چیتن شرما کو چھکا لگایا تھا اور پاکستان صرف 1 وکٹ سے کامیاب ہوا تھا۔ پاکستان نے آسٹریلیشیا کپ بھی جیتا لیکن اس سے کہیں بڑھ کر بھارت پر وہ نفسیاتی برتری حاصل کی کہ اگلے 10 سالوں میں بھارت اس میدان پر پاکستان کو صرف ایک میچ ہرا پایا، جبکہ پاکستان نے 12 مقابلے جیتے۔

ویسے 1991ء میں بھارت کو شارجہ چھکے کا بدلہ لینے کے پورا پورا موقع ملا تھا۔ یہ 23 اکتوبر کو کھیلا گیا ولس ٹرافی کا ایک مقابلہ تھا جس میں پاکستان نے عامر سہیل کے 91 رنز کی بدولت 257 رنز بنائے تھے۔ تعاقب میں بھارت بہترین پوزیشن پر تھا۔ 219 رنز تک اس کی صرف تین وکٹیں گری تھیں، صرف 39 رنز درکار تھے اور سات وکٹیں باقی تھیں۔ یہاں پر پاکستان نے سنجے مانجریکر اور سچن تنڈولکر دونوں کو 49،49 رنز پر آؤٹ کیا اور معاملے کو آخری اوور میں 12 رنز تک لے آیا، بالکل شارجہ 1986ء کی طرح۔ یہاں بھارت کو وقار یونس کی آخری گیند پر پانچ رنز کی ضرورت تھی لیکن اُن کے پاس جاوید میانداد جیسا بلے باز نہیں تھا۔ کرن مورے آخری گیند ضائع کر بیٹھے اور پاکستان صرف 4 رنز سے یہ میچ جیت گیا۔ یوں بھارت نے پاکستان کی نفسیاتی برتری ختم کرنے کا سنہرا موقع گنوایا اور پھر پوری دہائی پاکستان کے ہاتھوں ایک کے بعد دوسرا میچ ہارتا ہی رہا۔

شارجہ میں پاک-بھارت کرکٹ 2000ء تک چلتی رہی، کیا کیا شاہکار میچز اس دوران کھیلے گئے لیکن پھر دونوں ملکوں میں میچ فکسنگ اسکینڈلز سامنے آئے اور شارجہ ویران ہو گیا۔

تب سے آج تک، یعنی 22 سال میں عرب امارات میں پاکستان اور بھارت کے مابین صرف پانچ میچز ہوئے ہیں۔ دو مقابلے 2006ء میں ابوظبی میں کھیلے گئے تھے، جن میں ایک میں پاکستان نے کامیابی حاصل کی اور ایک میں شکست کھائی۔

پاکستان اور بھارت، عرب امارات میں

سن 2000ء سے اب تک کھیلے گئے میچز

بمقابلہنتیجہمارجنبمقامبتاریخ
پاکستان بھارتفتح‏6 وکٹابوظبی‏18 اپریل 2006ء
پاکستان بھارتشکست‏51 رنزابوظبی‏19 اپریل 2006ء
پاکستان بھارتشکست‏8 وکٹدبئی‏19 ستمبر 2018ء
پاکستان بھارتشکست‏9 وکٹدبئی‏23 ستمبر 2018ء
پاکستان بھارتفتح‏10 وکٹدبئی‏24 ستمبر 2021ء

پھر 12 سال بعد دونوں ٹیمیں ایشیا کپ 2018ء میں مقابل آئیں۔ دبئی میں کھیلے گئے دونوں میچز میں بھارت نے پاکستان کو بُری طرح شکست دی، ایک میں 8 وکٹوں سے، دوسرے میں 9 وکٹوں سے۔

لیکن پاکستان نے اس کا پورا پورا بدلہ لیا 2021ء کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں۔ پاکستان اور بھارت ایک اہم مقابلے میں آمنے سامنے تھے جو یہاں کھیلا گیا پہلا پاک-بھارت ٹی ٹوئنٹی تھا۔ شاہین آفریدی کی تباہ کن باؤلنگ کی بدولت پاکستان نے ابتدا ہی میں جو مضبوط گرفت حاصل کی، وہ آخر تک برقرار رہی۔ یہاں تک کہ ٹیم پاکستان نے 152 رنز کا ہدف غیر متوقع طور پر بغیر کسی وکٹ کے نقصان کے حاصل کر لیا۔ 10 وکٹوں کی یہ فتح پاکستان کرکٹ تاریخ کی شاندار فتوحات میں سے ایک ہے۔

اب ایشیا کپ 2022ء میں پاکستان اور بھارت کم از کم دو مرتبہ تو مقابل آئیں گے ہی اور اگر تاریخ ہی پلٹ دی تو شاید تین مرتبہ بھی آمنے سامنے آ جائیں۔ شاید آپ کو جان کر حیرت ہو پاکستان اور بھارت ایشیا کی دو عظیم ترین ٹیمیں ہیں، لیکن کبھی ایشیا کپ کے فائنل میں مقابل نہیں آئیں۔ اگر اس مرتبہ سب کچھ بدل گیا تو شاید ہمیں ایشیا کپ کی 38 سالہ تاریخ میں پہلی بار یہ 'مہان مقابلہ' دیکھنے کو ملے۔