پاکستان کا مجوزہ و مشروط دورۂ بنگلہ دیش، سر توڑ کوششیں سر پھوڑ نہ ثابت ہوں

3 1,037

پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین اعجاز بٹ ملک کے میدانوں کی رونقیں بحال کرنے کے لیے سرتوڑ کوششیں کر رہے ہیں لیکن ان کی یہ کوششیں کہیں سر پھوڑ ثابت نہ ہو جائیں۔

پاکستان نے آخری مرتبہ 2002ء میں بنگلہ دیش میں ٹیسٹ سیریز کھیلی تھی (تصویر: Reuters)
پاکستان نے آخری مرتبہ 2002ء میں بنگلہ دیش میں ٹیسٹ سیریز کھیلی تھی (تصویر: Reuters)

گزشتہ روز سے پاکستان کے ذرائع ابلاغ میں دورۂ بنگلہ دیش کی خبریں گردش کر رہی ہیں جن میں کہا جا رہاہے کہ پاکستان نے بنگلہ دیش کے دورے کی یقین دہانی اس امر پر کرائی ہےکہ جواب میں وہ بھی پاکستان کا دورہ کرے گا۔ گو کہ بنگلہ دیش کی جانب سے اس امر کی تصدیق کی گئی ہے کہ دونوں ممالک کے بورڈز رواں سال کے آخر میں بنگلہ دیش میں سیریز کے انعقاد کے لیے مل کر کام کر رہے ہیں تاہم انہوں نے توثیق نہیں کی کہ اس سیریز کے انعقاد کے لیے پاکستان میں جوابی دورے کی کوئی شرط بھی رکھی ہے۔

اطلاعات کے مطابق پاکستان کے دورۂ بنگلہ دیش کے لیے رواں سال کا ماہِ دسمبر زیر غور ہے جب پاکستان سری لنکا کے خلاف 'ہوم' سیریز مکمل ہونے کے بعد انگلستان کے خلاف اہم ترین سیریز کے لیے پر تول رہا ہوگا۔ عالمی نمبر ایک انگلستان کے خلاف اس اہم سیریز سے قبل بنگلہ دیش کا دورہ کتنا موزوں ہے، اس حوالے سے اتنا سمجھ لینا ہی کافی ہے کہ پاکستان کے پاس سری لنکا اور انگلستان کے خلاف ہوم سیریز کے درمیان صرف دسمبر کا مہینہ فارغ ہے اور اگر پاکستان اور بنگلہ دیش کے خلاف سیریز کھیلی جاتی ہے تو ٹیم مسلسل تین سیریز کھیل کر تھک ہار کر عالمی نمبر ایک کے سامنے پہنچے گی اور عین ممکن ہے کہ وہی حال ہو جو اس وقت بھارت کا ہے جو انگلستان کے خلاف ٹیسٹ و ایک روزہ سیریز میں ایک فتح کو ترس رہا ہے۔

پاکستان اس وقت زمبابوے کے دورے پر موجود ہے جس کے بعد اس کا سامنا اگلے ماہ سری لنکا سے ہوگا جس کے خلاف 3 ٹیسٹ، 5 ایک روزہ اور ایک ٹی ٹوئنٹی بین الاقوامی مقابلے کی سیریز متحدہ عرب امارات میں منعقد ہوگی۔ یہ سیریز 18 اکتوبر سے 25 نومبر تک کھیلی جائے گی۔

جبکہ اس کے بعد پاکستان کی اگلی سیریز عالمی نمبر ایک انگلستان کے خلاف متحدہ عرب امارات میں طے ہے جہاں دونوں ٹیموں کے درمیان 3 ٹیسٹ، 4 ایک روزہ اور 3 ٹی ٹوئنٹی بین الاقوامی مقابلے کھیلے جائیں گے۔ اس سیریز کا دورانیہ 17جنوری سے 27 فروری ہے۔

یعنی کہ پاکستان کے پاس صرف دسمبر کا مہینہ موجود ہے جس میں وہ سری لنکا کے خلاف طویل سیریز کی تھکاوٹ بھی اتارے گا اور اگلی سیریز کے لیے تیاری بھی پکڑے گا۔ لیکن بنگلہ دیش کے خلاف مجوزہ سیریز میں پاکستان کو دو ٹیسٹ، تین ایک روزہ اور ایک ٹی ٹوئنٹی بین الاقوامی مقابلہ کھیلنے پڑیں گے جس سے ٹیم بجائے مضبوط ہونے کے ایک تھکے ماندہ دستے میں تبدیل ہو سکتی ہے اور عین ممکن ہے کہ ایک تر نوالے کی صورت میں انگلستان جیسی مضبوط ٹیم کے سامنے جا پڑے۔

پاکستان اور بنگلہ دیش کے دوران دو طرفہ کرکٹ تعلقات بہتر نہیں سمجھے جاتے، یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے گزشتہ سال بنگلہ دیش کے دورے سے انکار کر دیا تھا۔ بنگلہ دیش نے آخری مرتبہ 2008ء میں پاکستان کا دورہ کیا تھا جس کے بعد سے اب تک تمام طرز کی کرکٹ میں دونوں ٹیمیں صرف دو مرتبہ مدمقابل آئی ہیں ایک مرتبہ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2010ء میں اور ایک مرتبہ ایشیاء کپ 2010ء میں۔ پاکستان نے آخری مرتبہ 2002ء میں بنگلہ دیش کا دورہ کیا تھا۔ یہ امر بھی ملحوظ خاطر رہے کہ بنگلہ دیش نے پاکستان کا جوابی دورہ کرنے کی شرط بھی کوئی اپنی حکومت کی اجازت سے مشروط کر دیا ہے اور موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے اس کے امکانات کم ہی نظر آتے ہیں۔

اگر پاکستان اور بنگلہ دیش کے کرکٹ بورڈز کے مابین کوئی درونِ خانہ یقین دہانی والا معاملہ ہوتا بھی ہے تو اس کی کوئی حیثیت نہیں ہوگی، کیونکہ پاکستان میں سیکورٹی کے معاملات کو دیکھ کر ٹیم کو کھیلنے کی اجازت دینا اب بین الاقوامی کرکٹ کونسل کے بھی ہاتھ میں ہے جس کی پاکستان ٹاسک ٹیم کسی بھی ٹیم کو اجازت دینے سے قبل سیکورٹی کا جائزہ لے گی۔ اس لیے معاملہ صرف درونِ خانہ نہیں چلے گا، اسے بہرحال بین الاقوامی کرکٹ کونسل کے سامنے لانا پڑے گا اور اگر اس کی ٹیم پاکستان میں سیکورٹی کی صورتحال سے مطمئن نہ ہوئی تو خدشہ یہی ہے کہ وہ بنگلہ دیش کی خواہش کے باوجود اسے دورۂ پاکستان نہ کرنے دے۔ اس طرح پاکستان نہ صرف اپنا قیمتی وقت بنگلہ دیش کا دورہ کر کے ضایع کرے گا بلکہ جس مقصد کے لیے ٹیم کو اضافی دورے پر بھیجا جا رہا ہے وہ بھی حاصل نہیں ہوگا۔