اسپاٹ فکسنگ مقدمہ ڈرامائی مرحلے میں داخل، سلمان بٹ کے لیے دفاع مشکل ہو گیا
برطانیہ کی عدالت میں پاکستان کے تین کھلاڑیوں پر کھیل کے دوران دھوکہ دہی و بدعنوانی کا دائر مقدمہ ڈرامائی موڑ لیتا ہوا فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکا ہے، جہاں سابق کپتان سلمان بٹ کے لیے اپنا دفاع کرنا مشکل دکھائی دیتا ہے۔
اسپاٹ فکسنگ مقدمے کی سماعت کے دسویں روز ساؤتھ وارک کراؤن کورٹ میں وکیل استغاثہ آفتاب جعفر جی کی زبردست جرح کے باعث عدالت میں ماحول گرم ہو گیا، اور کئی معاملات پر سلمان بٹ طیش میں آ گئے۔ جبکہ سلمان بٹ کے لیے رہی سہی کسر محمد آصف کے وکیل الیگزینڈر ملنے سے پوری کر دی۔
گزشتہ سال اگست میں لارڈز ٹیسٹ کے دوران جان بوجھ کر نو بالز پھینکنے والے معاملے پر سلمان بٹ کا کہنا تھا کہ انہیں پہلے سے طے شدہ نو بالز کے حوالے سے سٹے باز اور دونوں گیند بازوں محمد آصف اور محمد عامر ہونے والی کسی گفتگو کا علم نہیں تھا۔
سما عت کے دوران وکیل صفائی اور وکیل استغاثہ دونوں نے سلمان بٹ سے جرح کی، اپنے وکیل کی سماعت تو کسی نہ کسی طرح بھگتا لی لیکن استغاثہ اور محمد آصف کے وکیل کے پرجوش دلائل کے سامنے سلمان بٹ پریشان ہو گئے۔
کھچا کھچ بھرے ہوئے کمرۂ عدالت میں زیادہ تر جرح سلمان بٹ کی مالی حیثیت کے حوالے سے ہوئی۔
وکیل استغاثہ کے سوالات پر سابق کپتان نے تسلیم کیا کہ انہوں نے پرتعیش زندگی کا لطف اٹھایا ہے اور 28 ہزار پاؤنڈ (38 لاکھ پاکستانی روپے کی) مالیت کا موبائل فون اور 4 گھڑیاں خریدیں۔ گھڑیوں کے شوقین سابق کپتان نے عدالت کو بتایا کہ ان کی کلیکشن میں چار گھڑیاں شامل ہیں جن میں ساڑھے 12 ہزار پاؤنڈز (تقریباً 17 لاکھ پاکستانی روپے) کی رولیکس، ساڑھے 5 ہزار پاؤنڈز (تقریباً ساڑھے 7 لاکھ پاکستانی روپے)کی بلگیری، 4 ہزار پاؤنڈز (تقریباً ساڑھے 5 لاکھ پاکستانی روپے) کی ٹیگ ہیور اور 3 ہزار پاؤنڈز (4 لاکھ پاکستانی روپے سے زائد مالیت کی) اومیگا گھڑی شامل ہے جبکہ وہ گزشتہ دورۂ انگلستان کے دوران لندن سے 8 ہزار پاؤنڈ مالیت (تقریباً 11 لاکھ پاکستانی روپے ) کی بریٹنگ گھڑی بھی خریدنا چاہتے تھے۔ البتہ سابق کپتان نے اس الزام کی تردید کی کہ انہوں نے لالچ میں آ کر کھیل میں بد عنوانی کو اختیار کیا اور کہا کہ وہ پاکستان کے بہترین کمانے والے کھلاڑیوں میں شامل تھے۔
وکیل استغاثہ آفتاب جعفر جی کی جانب سے زبردست جرح کے دوران سلمان بٹ کئی مرتبہ طیش میں آئے تاہم وہ انہیں گھورنے سے زیادہ کچھ نہ کر سکے۔
وکیل استغاثہ نے گزشتہ سال اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل کے منظر عام پر آنے کے بعد 3 ستمبر کو ایک لاکھ 15 ہزار پاؤنڈز (ڈیڑھ کروڑ سے زائد پاکستانی روپے) کی خطیر رقم کی پاکستان منتقلی کے حوالے سے سوال کیا، جس پر سلمان بٹ نے کہا کہ وہ رقم میں نے اپنی والدہ کے لیے پاکستان منتقل کی تھی تاکہ وہ با آسانی زندگی گزار سکیں اور سرمایہ کاری کر سکیں، کیونکہ مجھے یقین نہیں تھا کہ میں پاکستان واپس بھی پہنچ سکوں گا یا نہیں۔ جس پر وکیل استغاثہ نے کہا کہ دراصل آپ نے وہ رقم تفتیش کاروں سے چھپانے کے لیے پاکستان منتقل کی تھی۔ جس پر سلمان بٹ طیش میں آ گئے اور کہا کہ یہ آپ کی بدگمانی ہے، آپ کو مسلم کلچر کے بارے میں کچھ نہیں معلوم۔
وکیل استغاثہ نے دوسرا سوال پاکستان کے گزشتہ دورۂ انگلستان کے دوران سلمان بٹ کے بینک کھاتے سے 13 ہزار پاؤنڈز (ساڑھے 17 لاکھ پاکستانی روپے) کی خطیر رقم کی مظہر مجید کے کھاتے میں منتقلی کے بارے میں کیا۔ جس پر سلمان بٹ نے کہا کہ وہ ان کا اچھا دوست تھا اور اسے اپنی اہلیہ کے علاج کے لیے فوری طور پر رقم درکار تھی۔ یہ پہلا موقع تھا کہ اس نے مجھ سے رقم کا مطالبہ کیا تھا اور کیونکہ میں اس کی خوشحالی کے بارے میں جانتا تھا اس لیے میں نے بخوشی اسے قرضہ دے دیا۔ واضح رہے کہ مظہر مجید ایک آسودہ حال اور امیر کبیر شخص تھا، جو مہنگی آسٹن مارٹن گاڑی کا بھی مالک تھا۔
سلمان بٹ کے اس جواب پر جعفر جی نے فوراً کہا کہ آپ عدالت سے جھوٹ بول رہے ہیں، جس پر سلمان بٹ بولے کہ ایسا صرف آپ سوچ رہے ہیں اور میں آپ کو سوچنے سے نہیں روک سکتا۔
جعفر جی نے سلمان بٹ اور مظہر مجید کے درمیان اسپانسرشپ کے حوالے سے ہونے والے معاہدوں پر بھی تنقید کی اور کہا کہ یہ ایسے معاہدے تھے جنہیں تحریری صورت میں لانے کی بھی ضرورت نہیں تھی اس لیے یہ تمام رقم جو وہ ایجنٹ سے وصول کرتے صرف اور صرف فکسنگ کے پیسے تھے۔
قبل ازیں لارڈز ٹیسٹ کے بعد سلمان بٹ کے کمرے پر پڑنے والے چھاپے سے برآمد ہونے والی ڈھائی ہزار پاؤنڈز کی رقم کے حوالے سے سوال پر سلمان بٹ نے قبول کیا کہ یہ رقم انہیں مظہر مجید نے دی تھی لیکن دعویٰ کیا کہ میرے خیال میں یہ اُس آئس کریم پارلر کے افتتاح کے لیے ملنے والی رقم تھی جس کا افتتاح انہوں نے چند روز قبل لندن میں کیا تھا۔
اس موقع پر وکیل صفائی علی باجوہ نے بھی سلمان بٹ سے کچھ سوالات کیے جن میں اہم سوال مظہر مجید اور صحافی مظہر محمود کے درمیان لندن کے ایک ہوٹل میں ہونے والی گفتگو سے آگہی کے بارے میں تھا، جس سے سلمان نے کلی طور پر انکار کیا کہ انہیں ان دونوں کی گفتگو کے بارے میں کچھ علم نہیں تھا۔
دن کی دوسری اہم ترین جرح محمد آصف کے وکیل الیگزینڈر ملنے نے کی جنہوں نے سلمان بٹ پر الزام لگایا کہ انہوں نے میرے مؤکل محمد آصف پر دباؤ ڈالا کہ وہ لارڈز ٹیسٹ کے دوران وہ بدنام زمانہ نو بالز پھینکیں۔ انہوں نےکہا کہ سلمان بٹ نے اننگز کے دسویں اوور کے دوران مسلسل محمد آصف پر گفتگو کے ذریعے دباؤ ڈالا۔ واضح رہے کہ چند روز قبل محمد آصف کہہ چکے ہیں کہ ان پر کسی کا دباؤ نہیں تھا، اور نہ ہی ان پر کوئی دباؤ ڈال سکتا ہے۔
الیگزینڈر ملنے نے کہا کہ اس اوور کے دوران سلمان بٹ شارٹ مڈ آف پر پچ کے کافی قریب کھڑے تھے۔جس پر سلمان بٹ نے کہا کہ قریب کھڑے ہونے کا مقصد آصف کو دباؤ میں لانا نہیں بلکہ اس کی حوصلہ افزائی کرنا تھا۔ ملنے سے پھر سوال داغا کہ محمد آصف کی نو بال پھینکنے سے پہلے آپ نے کہا 'تیز دوڑ چ*****، بہت آہستہ دوڑ رہا ہے' ۔ جس پر سلمان بٹ نے کہا کہ اگر آپ نے کبھی کرکٹ کھیلی ہو تو آپ کو پتہ ہوگا کہ اس طرح کی بات کبھی فاسٹ باؤلر سے نہیں کی جاتی، تیز دوڑنے سے کچھ نہیں ہوتا، وہ 100 میٹر ریس میں حصہ نہیں لے رہا تھا وہ باؤلنگ کر رہا تھا، نہ ہی آصف کو برق رفتار باؤلر تھا، وہ ایک ردھم باؤلرتھا، جو درمیانی رفتار کے ساتھ دوڑتے ہوئے بال کراتا تھا۔
علاوہ ازیں سلمان بٹ نے عدالت کے سامنے یہ بھی کہا کہ انہوں نے مظہر مجید کے بارے میں غلط اندازہ لگایا۔ انہوں نے کہا کہ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ وہ کس طرح کا آدمی ہے لیکن اب کافی چیزیں آشکار ہو چکی ہیں، میں نے اُس کی شخصیت کے بارے میں مکمل طور پر غلط سوچا۔ میں نے ہمیشہ اس پر بھروسہ کیا اور طویل عرصے تک دوستی رکھی اور کبھی سوچا تک نہیں تھا کہ اس کی شخصیت کا ایسا بھیانک روپ بھی ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ مجھے صرف ڈھائی ہزار پاؤنڈ لینے کے مقدمے کو بھگتنا پڑ رہا ہے حالانکہ میں ہر میچ میں اس سے چار گنا زیادہ کما لیتا تھا۔
پاکستان کے تین کھلاڑی سلمان بٹ، محمد آصف اور محمد عامر بدعنوانی و دھوکہ دہی اور کھیل کے دوران جعلی طریقوں سے رقم حاصل کرنے کے مقدمے کو بھگت رہے ہیں۔ اس مقدمے میں محمد عامر پہلے ہی اعتراف جرم کر چکے ہیں جبکہ محمد آصف اور محمد سلمان اب بھی صحت جرم سے انکار کر رہے ہیں۔
مقدمے کی سماعت جاری ہے۔