سزا پانے والے کھلاڑیوں سے کوئی ہمدردی نہیں؛ پاکستان کرکٹ بورڈ

3 1,011

مجھے یاد ہے کہ جب 2000ء میں بھارت کا دورہ کرنے والی جنوبی افریقہ کے کپتان ہنسی کرونیے پر نئی دہلی پولیس نے سٹے بازوں سے گفتگو کرنے اور معلومات کے عوض رقوم وصول کرنے کا الزام لگایا تھا تو جنوبی افریقہ سے جو پہلا ردعمل سامنے آیا تھا وہ یہ تھا کہ بھارتی پولیس ہر گز ہمارے کسی کھلاڑی کو ہاتھ نہیں لگائے گی ورنہ دورہ منسوخ کر دیا جائے گا اور کیونکہ الزام ہمارے کھلاڑی پر ہے اس لیے اس کی تحقیقات بھی ہم خود کریں گے۔

بعد ازاں ہنسی کرونیے وطن واپس پہنچے اور ان کے خلاف تحقیقات کا آغاز ہوا، اعتراف جرم کے بعد ان کو پہلے قیادت سے ہٹا دیا گیا اور بعد ازاں تاحیات پابندی لگا دی گئی لیکن اس پورے قضیے میں جنوبی افریقہ نے بھارتی پولیس کے ہاتھ اپنے کھلاڑی کے گریبان تک نہیں پہنچنے دیے۔

اس کے مقابلے میں آپ گزشتہ سال دورۂ انگلستان میں اسپاٹ فکسنگ کا معاملہ منظرعام پر آنے کے بعد سے پاکستان کرکٹ بورڈ کا رویہ دیکھیں۔ بورڈ قومی کرکٹ ٹیم کے تین اہم کھلاڑیوں، جن میں کپتان اور دو اہم گیند باز شامل تھے، سے یوں لاتعلق ہو گیا جیسے باپ کے انتقال پر غریب گھرانے سے پورے خاندان والے نظریں پھیرتے ہیں۔

ملک کی کی نمائندگی پر فخر محسوس کرنے اور اس کی عزت میں اضافہ کرنے کی بجائے ان کھلاڑیوں نے اپنے چاہنے والوں کو دکھ پہنچایا: ترجمان ندیم سرور
ملک کی کی نمائندگی پر فخر محسوس کرنے اور اس کی عزت میں اضافہ کرنے کی بجائے ان کھلاڑیوں نے اپنے چاہنے والوں کو دکھ پہنچایا: ترجمان ندیم سرور

اور اب جبکہ سلمان بٹ، محمد آصف اور محمد عمر کو قید جیسی سنگین سزائیں سنائی جا چکی ہیں اس وقت بھی کرکٹ بورڈ کا کہنا ہے کہ ملک میں ان کھلاڑیوں سے کوئی خاص ہمدردی نہیں پائی جاتی۔ پاکستان کرکٹ بورڈ، جو کھلاڑیوں کی ذہنی و اخلاقی تربیت کا بھی ذمہ دار ہے، کے ترجمان ندیم سرور نے کہا ہے کہ آج کا دن پاکستان کرکٹ کیلئے افسوسناک ہے کیونکہ ان تین ٹیسٹ کرکٹرز نے ملک کی جانب سے کھیلتے ہوئے فخرمحسوس کرنے اور ملک کی عزت میں اضافہ کرنے کی بجائے اپنے چاہنے والوں کو دکھ پہنچایا جبکہ ملک اور کرکٹ جیسے عظیم کھیل کی ساکھ کو نقصان پہنچایا جس پر ان سے کوئی خاص ہمدردی نہیں ہے۔

برطانوی عدالت کے دھوکہ دہی و بدعنوانی کے خلاف دائر پورے مقدمے کے دوران پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے ایک لفظ بھی ادا نہیں کیا گیا اور فیصلہ سنائے جانے کے فوراً بعد ردعمل سامنے آ گیا جس میں پی سی بی کا کہنا ہے کہ اس کا عہد ہے کہ پاکستان کرکٹ سے کرپٹ رویے کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے گا اور بورڈ کی زیر نگرانی تربیتی کورسز میں ایجوکیشن پروگرام کو مزید بہتربنایا جائے گا جس میں بین الاقوامی کرکٹ کے حوالے سے قوانین اور ضوابط سمجھانے کے ساتھ ساتھ گیم اسپرٹ کی تعلیم بھی شامل ہے ۔

ترجمان کا کہنا ہے کہ تعلیمی پروگراموں میں نوجوان کھلاڑیوں کو یہ بھی تربیت دی جارہی ہے کہ انہیں نئے لوگوں کے ساتھ کیسے روابط رکھنے چاہیے اور غلط کردار کے لوگوں سے دور رہنے کی بھی تعلیم دی جارہی ہے تاکہ مستقبل میں نوجوان کھلاڑی غلط سرگرمیوں سے دوررہیں۔انہوں نے کہا ہے کہ آئندہ کیلئے قوانین پر عمل درآمد کے لیے مانیٹرنگ سسٹم کو بھی بہتر بنایا جارہا ہے اور نگرانی رکھنے کے لیے بھی ایک سسٹم متعارف کرایا جائیگا تاکہ کھلاڑیوں کو بہکانے کا سلسلہ روکا جائے۔

پاکستان کرکٹ بورڈ نے کرکٹرز کے ایجنٹ کی رجسٹریشن کے قوانین کا بھی ازسرنو جائزہ لینے اور اسے مزید سخت بنانے کا عندیہ دیا اور کہا کہ غیر قانونی ایجنٹ کی تقرری کی اجازت نہیں ہوگی۔

علاوہ ازیں کھیلوں میں کرپشن کو روکنے کیلئے حکومت پاکستان کو تجویز پیش کی جائے گی کہ پارلیمنٹ سے ایک ایسا قانون پاس کیا جائے جس سے کھیلوں سے بدعنوانی کا خاتمہ ہو اور یہ قانون ایسا ہوگا جس میں بدعنوان لوگوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی اور انہیں سخت سزا دی جائے گی اور اس پر ہرصورت میں عمل درآمد ہوگا۔

جاری شدہ بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ فوری طور پر یہ اقدامات کررہا ہے جبکہ ضرورت پڑنے پر مزید اقداما ت بھی کیے جائیں گے اوراگر پاکستان کرکٹ میں کہیں بدعنوان رویہ موجود پایا گیا تو اس کے خلاف ہنگامی سطح پر سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔

پاکستان کرکٹ بورڈ مستقبل میں آئی سی سی اور دیگر ممبرز بورڈ کے ساتھ ملکر کھیل کو کرپشن سے پاک رکھنے کیلئے اپنا تعاون جاری رکھے گا۔

اسپاٹ فکسنگ کے پورے قضیے پر چپ سادھنے کے بعد یہ بلند و بانگ دعوے کس حد تک حقیقت کا روپ دھارتے ہیں اس کو جانچنے کے لیے اگلے چند ماہ ہی کافی ہوں گے۔