آئی پی ایل: کرکٹ یا تماشہ - دوسری قسط

0 1,057

"آئی پی ایل کرکٹ یا تماشہ" کی دوسری اور آخری قسط ملاحظہ ہو۔ اس تحریر میں میں ان توقعات پر روشنی ڈالوں گا جو مجھے اور ہر کرکٹ سے محبت کرنے والے کو انڈین پریمیئر لیگ اور اس کے منتظمین بھارتی کرکٹ بورڈ اور بین الاقوامی کرکٹ کونسل سے ہیں۔ (اگر آپ نے پہلی قسط نہیں پڑھی، تو یہاں ملاحظہ کیجیے)۔

اس تحریر کو لکھتے ہوئے آئی پی ایل کا فائنل چنئی سپر کنگز اور کولکتہ نائٹ رائڈرز کے درمیان کھیلا جارہا تھا۔ فائنل میں ''کے کے آر'' نے ''سی ایس کے'' کو ایک سنسنی خیز مقابلے کے بعد شکست دی اور پہلی بار ٹائٹل اپنے نام کیا۔ اس مقابلے میں ایک موقع پر کمنٹری ٹیم کا ایک رکن بھارت کے ماضی کےکھلاڑی فرخ انجینئر سے بات چیت کرتا ہے اور ان سے آئی پی ایل کے بارے میں سوال کرتا ہے تو فرخ انجینئر کہتے ہیں "It's great tamasha, yeah it's great entertainment, and it's good." یہاں میرے لبوں پربے اختیار تبسم آگیا کیونکہ اس مقابلے کو دیکھنے سے پہلے میں اسی موضوع پر لکھ رہا تھا۔

فرخ انجینئر بھی آئی پی ایل کو صرف ایک تماشہ ہی سمجھتے ہیں۔ بدقسمتی سے یہ ایک حقیقت ہے ہرعام وخاص آئی پی ایل کوکرکٹ تماشہ سمجھتا ہے۔ اب یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس میں برا کیا ہے؟ تماشہ ہی تو بکتا ہے، اور ویسے تو ہر ملک میں لیکن برصغیر پاک و ہند میں تو تماشے کی انتہائی مانگ ہے۔ تو اگر آئی پی ایل کرکٹ تماشہ کرکے پیسے کما رہا ہے تو اس میں براکیا ہے؟ جی کوئی برائی نہیں ہے، جائز طریقے سے پیسے کمانے میں برائی نہیں ہوسکتی اس لیے آئی پی ایل کے تماشہ ہونے پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اس بات سے کون انکاری ہوسکتا ہے کہ کسی بھی کھیل کو دیکھنے کا ایک مقصد فارغ وقت سےلذت اندوزی ہی تو ہوتا ہے۔ اور لذت آپ کو تماشے سے ہی ملتی ہے۔ لیکن !! تماشے میں ایک مثبت مقصد ہونا چاہیے۔ تماشہ چاہے کسی بھی صورت میں ہو جب بھی تماشہ کرنے کا مقصد صرف اور صرف پیسہ ہوتا ہے تو تماشے سے مقصدیت ختم ہوجاتی ہے۔ بھارتی ٹی وی کے ساس بہو کے ڈرامے ہوں یا بالی ووڈ کی نام نہاد کمرشل فلمیں جب بھی کہانی میں مقصدیت نہیں ہوتی ایسے ڈرامے اور فلمیں معاشرے اور سماج کی تعمیری نشونما میں کوئی مثبت کردار ادا نہیں کرسکتیں۔ تماشہ دیکھنے والے اور تماشہ بنانے والے دونوں کو علم ہوتا ہے کہ یہ صرف ایک تماشہ ہے اور کچھ نہیں، کیونکہ ان ڈراموں اور فلموں کو بنانے والے ببانگ دہل مانتے ہیں کہ ان کا مقصد ہے کمرشل کامیابی یعنی دوسرے الفاظ میں پیسہ اور صرف پیسہ ہے۔دوسری طرف ایسی فلمیں اور ڈرامے جن میں تماشے کے ساتھ ساتھ ایک بامقصد پیغام بھی ہوتا ہے وہ تماشہ دیکھنے والوں کے دل ودماغ میں ایک دیرپا اثرچھوڑجاتی ہیں، کیونکہ تماشہ بنانے والا تماشہ بناتے ہوئے اپنے مقصدیت کو ہمیشہ ہر چیز پر مقدم رکھتا ہے، اور تماشہ دیکھنے والا بھی اسی مقصد کے تحت دکھانے والے کا پیغام دیکھتا ہے جو آگے جاکر معاشرے کی سوچ بدلنے میں ایک تعمیری کردار ادا کرتی ہیں۔ اس لیے تماشہ کرنے میں برائی نہیں ہے، لیکن صرف پیسوں کے لیے تماشہ کرنے میں برائی ہے۔

آئی پی ایل 2012ء میں فائنل سمیت ایسے بہت سارے مقابلے ہوئے ہیں جن کا اختتام انتہائی سنسنی خیز اور دلچسپ تھا۔ جس نے ایک بار پھر ثابت کردیا کہ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ انتہائی دلچسپ کھیل ہے، ہم کہہ سکتے ہیں کہ ٹی ٹوئنٹی نے کرکٹ کھیل کو ایک لازوال کھیل میں تبدیل کردیا ہے۔ اور بلاشبہ آئی پی ایل نے کرکٹ میں ایک انقلاب کی بنیاد رکھ دی ہے۔ جیسے میں نے پہلے کہا ہے کہ مجھے جب اس منصوبے آئی پی ایل، خاص کراس کی تفصیلات کا علم ہوا تو بے حد خوشی ہوئی کہ بالآخرکرکٹ بھی اب بہت جلد فٹ بال کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بین الاقوامی شہرت حاصل کرے گا۔ میں نے تصور ہی تصور میں بھارت اور پھر آہستہ آہستہ باقی ممالک میں فٹ بال طرز کی لیگ کا ایک عظیم الشان نقشہ کھینچ لیا تھا۔ فٹب ال (جسے امریکی ساکر یا سوکر بھی کہتے ہیں) کا لیگ سسٹم کامیابی و کامرانی کے ساتھ یورپ اور جنوبی امریکہ میں رائج ہے اور اب وسطی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا میں بھی کامیابی کے ساتھ مضبوط سے مضبوط تر ہوتا جارہا ہے۔

میرے تصور میں بھارتی آئی پی ایل کے لیے جو نقشہ تھا وہ برطانوی لیگ سسٹم پر مشتمل تھا۔ آئی پی ایل کے منتظمین نے بھی برطانوی فٹ بال لیگ اور خاص طور پر برطانوی فٹ بال پریمیئر لیگ کے ڈھانچے پر ہی آئی پی ایل کی تخلیق کی بنیاد رکھی تھی۔

برطانوی فٹ بال لیگ سسٹم ایک ایسی مثال ہے جس کی کامیابی کا ثبوت ایک صدی سے زیادہ عرصے پر محیط ہے۔ برطانوی فٹ بال لیگ سسٹم 24 درجے رکھتی ہے۔ جس میں اول پریمیئر لیگ سے پانچویں درجے تک 92 ٹیمیں ہیں جن کو پیشہ ورانہ لیگ کا درجہ حاصل ہے۔ اور 5 سے 8 درجوں میں 264 ٹیمیں ہیں جو نیم پیشہ ورانہ درجہ رکھتیں ہیں۔ ان 8 درجوں کے بعد نیچے 16 درجے ہیں جن میں سینکڑوں ٹیمیں ہیں۔ اس پورے لیگ سسٹم میں پریمیئرلیگ کی اول آنے والی ٹیم برطانوی لیگ کی چیمپئن، اور دوسری، تیسری اور چوتھی پوزیشن والی ٹیموں کے ساتھ یورپ میں کھیلنے کا حق جیت لیتی ہے۔ آخری تین پوزیشن پر آنے والی ٹیمیں پریمیئر لیگ سے نیچے درجے میں تنزلی کا شکار ہوجاتی ہیں۔ اسی طرح ہر درجے میں آخری پوزیشن لینے والی ٹیمیں تنزلی کا شکار اور پہلی، دوسری اور تیسری پوزیشن لینے والی ٹیمیں ترقی کرکے اوپر والے درجے میں پچنہ جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ اول سے دہم درجے والی ٹیمیں برطانوی فٹبال لیگ کپ اور ''ایف اےکپ'' میں بھی حصہ لیتی ہیں، جس کو جیتنے پر یورپ میں کھیلنے کا حق بھی جیتا جاسکتا ہے۔

اس طرح ہرسیزن کے شروع ہونے پر ہر ٹیم اپنی طاقت کے مطابق چیمپئن شپ جیتنے، اوپر والے درجے میں ترقی، تنزلی سے بچاؤ وغیرہ جیسے مقاصد کے ساتھ میدان میں اترتی ہیں۔ ہر ٹیم کا پرستار اپنے شہر، قصبے اور گاؤں کی ٹیم کے ان مقاصد کا پورا ہونے کے ارمانوں اور خواہشات کے ساتھ اپنی ٹیم کی سپورٹ کرتا ہے۔ سیزن کے شروع ہونے سے لے کر آخری مقابلے تک سٹیڈیم جاکراپنی ٹیم کی حوصلہ افزائی دوسرے ہزاروں پرستاروں کے ساتھ مل کرجوش خروش والےگیت اور نعرے لگا کرکرتا ہے۔ یہ پرستار اپنی ٹیم کی سپورٹ اس لیے نہیں کرتا کہ اس کی ٹیم میں کون سا اسٹار کھلاڑی کھیل رہا ہے، یا اس کی ٹیم لیگ میں کس درجے میں ہے، اس پرستار کی اپنی فٹ بال ٹیم سے محبت صرف ایک وجہ سے ہے اور وہ ہے یہ ٹیم اس کے شہر، قصبے اور گاؤں کی ہے اس طرح یہ ٹیم اس کی اپنی ہے۔ جب آپ ایسے پرستار کی اپنی ٹیم کے بارے میں باتیں سنیں گے تو وہ ہمیشہ ٹیم کے لیے "ہم" ہی کا لفظ استعمال کرے گا۔ اپنی ٹیم کے ہرکھلاڑی کے ساتھ اس کا رشتہ بن جاتا ہے۔ یہ اپنائیت ہی تماشے میں مقصد پیدا کرتا ہے۔ اسی اپنائیت نے برطانیہ، سپین، جرمن، اور فرانس اور پوری دنیا میں فٹبال لیگ کو ایک مضبوط صنعت بنادیاہے۔ اسی اپنائیت کی وجہ سے پرستار پیسے دے کر ٹکٹ خریدکرمیچ دیکھنے آتے ہیں، ٹیموں کے نام اور لوگو والی کٹ خریدتے ہیں۔اور اس کے علاوہ اس اپنائیت کے ذریعے جب پیسے آتے ہیں تو وہ انفرادی یا ایک دو اداروں کے پیٹ میں نہیں جاتے، بالکہ اس علاقے جس کی ٹیم ہے کے مقامی آبادی کو بھی اس کا پھل ملتا ہے۔

ایسی اپنائیت پیدا کرنا بالکل بھی مشکل نہیں ہے۔ کیونکہ یہ انسان کی فطرت میں ہے وہ اپنے علاقے، اپنے شہر، گاؤں اور گلی محلے سے محبت کرتا ہے۔ مجھے یاد ہے بچپن میں ہمارے گاؤں میں بھی جب پڑوسی گاؤں سے ٹیم میچ کھیلنے آتی تو کرکٹ کا شوق رکھنے والے تو میچ دیکھنے آتے ہی تھے، ساتھ میں وہ لوگ بھی آجاتے جنہیں عام طور پر کرکٹ سے کوئی خاص لگاؤنہیں ہوتا تھا۔ جب میچ ختم ہوجاتا جیتنے پر کھلاڑیوں کی تعریف کی جاتی اور کبھی بہترین انفرادی کارکردگی ہوجاتی تویار لوگ کہتے ''اگر پرچی کا رواج ہمارے ملک سے ختم ہوجائے تو قسم سے یہ لڑکا پاکستان ٹیم کے لیے بھی کھیل سکتا ہے'' اور اگر میچ ہار جاتے تو '' یہ آپس میں کھیلتے ہوئے شیر ہوتے ہیں، دوسروں کے سامنے بھیگی بلی بن جاتے ہیں'' ۔۔۔۔ فلاں کو باؤلنگ دی ہی کیوں؟ وغیرہ وغیرہ۔ گاؤں کے ہر شخص کو اپنی ٹیم کے ساتھ اپنائیت ہوتی تھی، کیوں؟ صرف اس لیے کہ اس ٹیم کے ساتھ گاؤں کا نام جڑاہوتا تھا۔ آج کل جگہ کی کمی، اورلڑکے جیسے ہی کمانے کے قابل ہوجاتے انہیں بیرون ملک بھیجنے کا رواج عام ہونے کی وجہ سے کرکٹ کم ہوتی جارہی، اور اس کی جگہ والی بال نے لے لی ہے، جو نسبتاً آسان کھیل ہیں جسے ہر کوئی کھیل سکتا ہے۔ لیکن والی بال میچ میں بھی معاملہ وہی ہوتا ہے کہ دوسرے گاؤں کے ساتھ میچ ہو تو ہر شخص پورا نہیں تو کچھ نہ کچھ میچ کا حصہ ضرور دیکھے گا۔ وجہ وہی ہے اپنی گاؤں کی ٹیم کے ساتھ اپنائیت۔

آئی پی ایل میں ایسی اپنائیت نہیں ہے۔ عام آدمی کو شاید ہی ٹیم کے ہر رکن کا نام معلوم ہو۔ دوسرا بی سی سی آئی نے مضحکہ خیز قدم اٹھایا کہ اسٹار کھلاڑیوں کی ادلی بدلی کردی- دوسرا سب زیادہ نقصان دہ کہ آج ژاک کیلس کولکتہ نائٹ رائیڈرز کے لیے کھیل رہا ہے تو کل کسی دوسری ٹیم کے لیے کھیل رہے ہوں گے۔ یعنی کولکتہ والے ژاک کیلس کو اپنا کھلاڑی نہیں کہہ سکتے۔ ایک طرح سے یہ کھلاڑی کرائے کے ٹٹو ہیں۔ ایسے میں ان کے ساتھ عام پرستار کی اپنائیت کیسے پیدا ہوگی۔اس صورتحال نے آئی پی ایل کو ایک پیشہ ورانہ کرکٹ لیگ سے کرکٹ تماشہ بنادیا ہے۔ اس تماشے کا صرف ایک ہی مقصد ہے اور وہ ہے پیسہ۔ ٹیموں کے مالکان، منتظمین، کھلاڑی ہر کوئی چاہتا کسی نہ کسی طرح آئی پی ایل سے زیادہ سے زیادہ پیسے کمائے۔

لیکن آئی پی ایل کی شروعات میں ایسا نہیں تھا۔ آئی پی ایل کا آغاز توانتہائی شاندارتھا۔ عوام کا جوش و خروش قابل دید تھا، ہرطرف آئی پی ایل کے چرچے تھے۔ لاکھوں کروڑوں شائقین کرکٹ نے کرکٹ میدانوں میں اور ٹی وی پر آئی پی ایل دیکھی۔ کرکٹ کے پرستار بےحد خوش تھے کیونکہ کرکٹ سے محبت کرنے والا ہر بندے / بندی کو یہ خوب احساس تھا کہ باوجود اس حقیقت کے کہ ٹیسٹ کرکٹ ہی اصل اور بہترین کرکٹ ہے، اور ٹی ٹوئنٹی کرکٹ فوائد کے ساتھ کرکٹ کو نقصان بھی دے گی، نئے زمانے میں وقت اور جگہ کی کمی، ویسٹ انڈیز میں باسکٹ بال اور برطانیہ، آسٹریلیا میں فٹ بال وغیرہ کی مقبولیت نے کرکٹ کی فلاح میں ایک جمود ڈال دیا ہے جو تیزی سے تنزلی میں تبدیل ہورہا ہے۔ اس جمود اور تنزلی کوصرف ٹی ٹوئنٹی کرکٹ ہی روک سکتی ہے۔

آئی پی ایل 2012ء کی افتتاحی تقریب منتظمین کی چغلی کھا رہی ہے کہ وہ خود بھی آئی پی ایل کو کرکٹ تماشے سے زیادہ حیثیت نہیں دیتے۔ آئی پی ایل 2012ء کی افتتاحی تقریب کے ذریعے جس طرح زبردستی شائقین کرکٹ میں جوش و خروش لانے کی کوشش کی گئی وہ انتہائی افسوسناک ہے۔ آخر کرکٹ کو بالی ووڈ طرز کے غیرمعیاری ناچ گانے کی بیساکھیوں کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس کا جواب بے حد آسان ہے، شائقین کرکٹ آئی پی ایل کے بے مقصد تماشے سے اکتا چکے ہیں۔

آئی پی ایل 2012ء نے بے شمار مواقعوں پر اپنے منتظمین کو یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ اگر کوئی چیز آئی پی ایل کو لازوال بنا سکتی ہے تو وہ ہے کرکٹ۔ کیونکہ بی سی سی آئی، آئی پی ایل کو ایک تماشے کے طور پر پیش کرتا ہے جس میں کوئی مقصد نہیں ہوتا، اور کرکٹ کھیل خود ہر بار اس تماشے میں ایک واحد مقصدڈال دیتا ہے اور وہ ہے کرکٹ کا خوبصورت کھیل۔لیکن بدقسمتی سے کرکٹ ہر بار یہ ذمہ داری نہیں نبا سکتا، ہر میچ دلچسپ اور سنسنی خیز نہیں ہوگا۔ تب شائقین کرکٹ کو جو چیز آئی پی ایل کے ساتھ جوڑے رکھے گی وہ ہوگی لیگ سسٹم میں ان کی ٹیم کی مجموعی کاکردگی۔ لیکن اس کےلیے شائقین کا اپنی ٹیموں کے ساتھ اپنائیت انتہائی اہمیت رکھتی ہے۔اگر آئی پی ایل کو کرکٹ تماشے سے پیشہ ورانہ 2020 کرکٹ لیگ کا درجہ حاصل کرنا ہے تو بی سی سی آئی کو برطانوی فٹبال پریمیئر لیگ کا تماشہ ہی نہیں، اس کی روح بھی آئی پی ایل میں ڈالنا ہوگی۔