کراچی اور پی سی بی میں ٹھن گئی، نقصان کھلاڑیوں کا
پاکستان کرکٹ بورڈ ایک تجربہ گاہ بنتا نظر آ رہا ہے، شکر ہے ابھی تک چراگاہ نہیں بنا۔ دنیا بھر کے کرکٹ کھیلنے والے ممالک، حتیٰ کہ بنگلہ دیش جیسے چھوٹے بورڈز بھی، اپنی ڈومیسٹک کرکٹ سے بہت کچھ حاصل کررہے ہیں لیکن دنیائے کرکٹ کی چوتھی سب سے بڑی مارکیٹ ہونے کے باوجود پی سی بی نہ ہی صلاحیتوں کے اعتبار سے وہ کھلاڑی سامنے لا پا رہا ہے، اور نہ ہی مالی طور پر ویسے فوائد سمیٹ رہا ہے، جو باآسانی حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ کبھی کان کو اِس طرف سے پکڑ کر سمجھا جاتا ہے کہ بہتری آ جائے گی، کبھی دوسری جانب سے پکڑ کر اپنے تئیں یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ درست راستہ یہ ہے لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات ہے۔
اب بورڈ نے ڈومیسٹک کرکٹ کے ڈھانچے میں ایک مرتبہ پھر تبدیلی کرکے جو نیا محاذ کھولا ہے، بالآخر اس کا نتیجہ سامنے آ ہی گیا ہے۔ کراچی سٹی کرکٹ ایسوسی ایشن اور پاکستان کرکٹ بورڈ آمنے سامنے کھڑے ہیں اور یہ معاملہ کسی طرح ٹھنڈا ہوتا نہیں دکھائی دیتا۔ پی سی بی کے گورننگ باڈی کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ اگلا فرسٹ کلاس ڈومیسٹک سیزن بہرصورت 16 ٹیموں کے ساتھ ہی کھیلا جائے گا جن میں سے 4 کوالیفائنگ راؤنڈ کھیل کر آئیں گی یعنی کراچی کے تمام تر مطالبے اور ہنگامے کے باوجود اس کی محض ایک ٹیم ہی براہ راست مرکزی مرحلے تک پہنچے گی جبکہ دوسری کو کوالیفائنگ کے سخت مرحلے سے گزرنا ہوگا۔
کراچی پاکستان کا سب سے زیادہ آبادی والا شہر ہے جس کی آبادی اندازوں کے مطابق دو کروڑ سے بھی تجاوز کرچکی ہے۔ قومی کرکٹ کے نئے سیزن کا آغاز 18 اکتوبر سے ہو رہا ہے جس کے لیے پہلے سے تقسیم شدہ گولڈن اور سلور لیگ کی صف اول کی 6، 6ٹیموں کو جگہ دے دی گئی ہے جبکہ باقی 4 ٹیموں کو اپنا مقام خود حاصل کرنا ہوگا۔ اس معاملے پر اچھی خاصی لے دے ہوئی ہے اور صورتحال یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ بورڈ کی گورننگ باڈی کے اجلاس میں بھی اس پر گفتگو ہوئی۔ بورڈ نے کراچی کو 'لالی پاپ' دینے کی کوشش تو کی ہے کہ یکم ستمبر سے راولپنڈی میں ہونے والے قومی ٹی ٹوئنٹی کپ کے کوالیفائنگ راؤنڈ کا خاتمہ کردیتے ہیں اور براہ راست مرکزی مرحلہ کھلا دیتے ہیں۔ اس سے کراچی زیبراز براہ راست پہنچ جائے گا لیکن کراچی سٹی کرکٹ ایسوسی ایشن (کے سی سی اے) فرسٹ کلاس سے کم پر بات کرنے کو تیار نہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ کے سی سی اے نے بورڈ کے اجلاس سے واک آؤٹ کیا اور کل یعنی بدھ کی شام اپنا اجلاس طلب کرلیا ہے جس کے بعد پریس کانفرنس میں اہم اعلانات متوقع ہیں جن میں استعفے بھی پیش ہوسکتے ہیں۔
کے سی سی اے کے موجودہ صدر اعجاز فاروقی جب ماضی میں سیکرٹری تھے، تو کھلاڑیوں کے حق میں آواز اٹھانے اور مظاہرے کرنے پر ان پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔ کیا تاریخ ایک مرتبہ پھر خود کو دہرائے گی؟ اگر معاملہ ٹھنڈا نہ ہوا تو یہ بھی ممکن ہے۔ اس کے ساتھ ہی کراچی کے کھلاڑیوں کے مستقبل پر بھی سیاہ بادل چھانے لگے ہیں اور دباؤ میں بھی زبردست اضافہ ہوگیا ہے۔ اگر قائد اعظم ٹرافی کے آغاز سے پہلے ہی قومی ٹی ٹوئنٹی کپ میں کراچی کی کوئی ایک ٹیم اچھی کارکردگی پیش نہ کرسکی تو اس سے کے سی سی اے کی پوزیشن مضبوط کمزور ہوجائے گی۔
کون حق پر ہے اور کون نہیں، اس بارے میں تو کچھ کہنا ٹھیک نہیں ہوگا لیکن ایسے وقت میں جب پاکستان کرکٹ ویسے ہی مشکل دور سے گزر رہی ہے، ایسے بلاوجہ کے جھگڑے قومی کرکٹ کے ڈھانچے کو مزید کمزور کریں گے۔