شاہد آفریدی، تنازعات کی بدولت میڈیا کی آنکھ کا تارا

0 1,114

یہ میڈیا میں رہنے کا "شوق" ہے یا غیر ضروری بے باک کہ شاہد آفریدی کچھ ایسا ضرور بول دیتے ہیں جس کی ہرگز ضرورت نہیں ہوتی اور یوں مسلسل شہ سرخیوں کی زینت بنے رہتے ہیں۔ بلاشبہ پاکستان کرکٹ اور تنازعات کا چولی دامن کا ساتھ ہے اور اس سے ملک کا کوئی بڑا کھلاڑی بھی محفوظ نہیں، مگر شاہد آفریدی کا معاملہ کچھ "خاص" ہے کہ وہ اکثر تنازعات کو خود دعوت دیتے ہیں شاید یہی وجہ ہے کہ وہ تنازعات کے دلدادہ میڈیا کے "پسندیدہ" بنتے جا رہے ہیں۔

رواں سال کے آغاز میں بھارت میں منعقدہ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے دوران ایک صحافی کے سوال کے جواب میں جناب نے یہ بیان داغ دیا کہ "ہمیں پاکستان سے زیادہ انڈیا میں پیار ملتا ہے" جو کپتان صاحب کو بہت مہنگا پڑا اور اس پر پاکستانی شائقین، کرکٹ سے وابستہ شخصیات اور مقامی میڈیا نے بھرپور ردعمل کا اظہار کیا تو کہ "لالا" وضاحتیں دیتے دیتے ہلکان ہو گئے۔

ابھی پچھلے طوفان کی گرد بیٹھی نہیں تھی کہ انہوں نے پھر ایک نیا ہنگامہ مچا دیا۔ ایک میچ کے بعد رمیز راجہ نے ان سے کہا کہ لگتا ہے موہالی میں پاکستان کے کافی حامی ہیں، جس پر "لالا" نے کہا کہ "جی ہاں! بہت، یہاں بہت سے کشمیری موجود ہیں جو پاکستان کی حمایت کر رہے ہیں"۔ حالانکہ یہ بیان غلط ہرگز نہ تھا مگر بھارت میں کھڑے ہو کر ایسا بیان غیر ضروری تھا جس سے بلاوجہ تنازع نے جنم لیا۔ ویسے یہ بھی ممکن ہے کہ دوسرا بیان پہلے بیان کے اثرات کم کرنے کے لیے دای ہو مگر تیر ہاتھ سے نکل چکا تھا۔ نتیجہ یہی نکلا کہ بھارتی ذرائع ابلاغ نے آگ اگلنا شروع کر دی اور آفریدی دوبارہ سب سے زیادہ میڈیا کوریج حاصل کر گئے۔

ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں پاکستان اور خود آفریدی کی بھی بدترین کارکردگی پر عوام سیخ پا تھے، شدید تنقید جاری تھی اور سب کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ شاہد آفریدی کو کپتانی سے فارغ کیا جائے اور جوابا لالا نے اشارہ دیا کہ آسٹریلیا سے میچ ممکنہ طور پر میرا آخری مقابلہ ہوگا، مگر پاکستان آتے ہی "یو ٹرن" مارا اور ریٹائرمنٹ کا فیصلہ یہ کہہ کر واپس لے لیا کہ مجھ پر دوستوں اور اہل خانہ کا شدید دباؤ ہے۔ اس لئے میں مختصر طرز کی کرکٹ جاری رکھوں گا۔

ان کے علاوہ بھی بہت سے تنازعات ہیں جنہیں آفریدی نے خود آگے بڑھ کر گلے لگایا جیسے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے بعد کوچ وقار یونس اور انتخاب عالم کی بورڈ بھیجی گئی خفیہ رپورٹ ذرائع ابلاغ میں آ گئی کہ جس میں آفریدی کی قائدانہ صلاحیت پر سوال اٹھایا گیا تھا، جس پر شاہد نے غیر ضروری ردعمل ظاہر کیا کہ "میرے متعلق جھوٹ لکھا گیا جس پر سخت مایوسی ہوئی اور میرا نام خراب کرنے کی کوشش کی گئی"۔

اب ایک نیا تنازع سر اٹھا چکا ہے۔ برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی) کو دیے گئے انٹرویو میں شاہد آفریدی نے انکشاف کیا کہ "پاکستان میں ٹیلنٹ کی کمی ہے، نئے لڑکے باصلاحیت نہيں ہیں۔" اس بیان پر کافی لے دے ہوئی ہے اور یوں شاہد ٹیم کا حصہ نہ ہونے کے باوجود ذرائع ابلاغ پر چھائے ہوئے ہیں۔ وضاحتیں بھی شروع ہوچکی ہیں کہ بیان کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گيا ہے۔

بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو بحیثیت مجموعی غیر معمولی صلاحیتوں سے نوازا ہے اور فرق صرف ان کو نکھارنے کا ہے۔ اہلیت کے بجائے جہاں معیار ذاتی پسند و ناپسند کا ہے، وہاں ٹیلنٹ کی کمی کا شکوہ اچھا نہیں لگتا جبکہ سب جانتے ہیں کہ مسئلہ نظام کا ہے، باصلاحیت افراد کا نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو سعید اجمل اور محمد حفیظ جیسے بہترین گیند بازوں پر پابندی لگنے کے بعد پاکستان کبھی دوبارہ نہ ابھر پاتا۔

اس وقت بھی نوجوان ظفر گوہر، شہزاد اعظم، احسان عادل، سیف اللہ بنگش، عامر یامین اور اسامہ میر جیسے کھلاڑی موجود ہیں جو پاکستان سپر لیگ سمیت ڈومیسٹک کرکٹ میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکے ہیں۔ تمام نوجوان جو "لالا" کو رول ماڈل سمجھتے ہیں، ان کے لیے اس سے زیادہ حوصلہ شکن بیان نہیں ہو سکتا۔

پاکستان کرکٹ بورڈ نے شاہد آفریدی سے اس بیان کی وضاحت طلب کی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ معاملہ ٹھنڈا پڑ جائے جس کے بعد یقیناً شاہد آفریدی کچھ نیا سامنے لائیں گے اور یوں ان کی مقبولیت میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔