'جسے اللہ رکھے۔۔۔'

1 1,104

بچپن کی خاص طور پر کرکٹ یادیں کتنی خوشگوار ہوتی ہیں؟ بلے بازی کرنے والی ٹیم کے کسی کھلاڑی کا امپائر بن جانا اور پھر اگر فیصلہ بیٹنگ کرنے والی ٹیم کے حق میں ہو تو مخالفین کا ناراض ہونا اور دھاندلی کا الزام لگانا، اور بالفرض محال اگر اپنی ہی ٹیم کے خلاف متنازع فیصلہ دے دے تو دوستوں کا خفا ہوجانا آخر کون بھول سکتا ہے؟ یا پھر کبھی سب دوست دو ٹیموں میں برابر تقسیم ہو جاتے اور ایک کھلاڑی اضافی رہ جاتا تو اسے امپائر بنا کر دونوں طرف سے بلے بازی کی شاہانہ سہولت دی جاتی تھی۔ ایسے میں امپائر کے فیصلے پانسہ پلٹنے میں کلیدی کردار ادا کرتے تھے۔ ایسا کچھ بین الاقوامی سطح پر تو کبھی نہیں دیکھا گیا لیکن بنگلہ دیش اور انگلستان کے پہلے ٹیسٹ میں جب معین علی کو پانچ بار نئی زندگی ملی تو بچپن یاد آ گیا کہ ہمارے خیال میں ایسا صرف گلی کرکٹ میں ہی ہو سکتا تھا۔

چٹاگانگ کے ظہور احمد چودھری اسٹیڈیم میں کھیلے جا رہے ٹیسٹ کے پہلے دن کبھی ٹیکنالوجی تو کبھی امپائر بنگلہ دیش اور معین علی کے درمیان حائل ہوتے رہے یہاں تک کہ پانچ بار قسمت نے یاوری کی۔ صرف 21 رنز پر تین وکٹیں گنوانے کے بعد انگلستان خاصی مشکلات کا شکار تھا، جب معین علی میدان میں اترے۔ معین نے انگلستان کی ڈوبتی ناؤ کو ساحل تک پہنچانے کے لیے 170 گیندوں کا سامنا کیا اور 68 رنز بناکر آؤٹ ہوئے۔ لیکن اس سفر میں قسمت بھی ان کے ساتھ ساتھ تھی۔

معین ابھی ایک ہی رن بناسکے تھے کہ ان کے خلاف ایل بی ڈبلیو کی زوردار اپیل ہوئی لیکن نیوزی لینڈ کے کرس گیفنی نے انہیں ناٹ آؤٹ قرار دیا۔ بنگلہ دیش نے بھی ریویو نہیں لیا حالانکہ وہ آؤٹ تھے۔ خیر، ابھی 8 رنز ہی بنائے کہ تیج الاسلام کی گیند پر ایک اور اپیل ہوئی۔ اس بار بھی امپائر کے انکار پر بنگلہ دیشی کپتان نے ریویو کا فیصلہ کیا لیکن ڈی آر ایس نے امپائر کے فیصلے کی توثیق کی۔

اب معین آہستہ آہستہ قدم بڑھاتے ہوئے 17 رنز تک پہنچے۔ تبھی شکیب الحسن کی گیند پر سری لنکن امپائر کمار دھرماسینا نے انھیں ایل بی ڈبلیو قرار دے دیا۔ معین نے ٹی وی امپائر سے رجوع کا فیصلہ کیا تو ڈی آر ایس ٹیکنالوجی نے انھیں محفوظ قرار دے دیا۔ گیند پیڈ پر لگنے سے پہلے ان کے بلّے کا کنارہ لیتی ہوئی گئی تھی۔ یوں امپائر کو اپنا فیصلہ واپس لینا پڑا۔

کھانے کے وقفے کے بعد کھیل کا آغاز ہوا تو پہلے ہی اوور میں شکیب نے ایک بار پھر معین کو آؤٹ کردیا۔ امپائر کے فیصلے کے خلاف معین نے پھر قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا اور ریویو کی درخواست دی۔ یہاں 'ہاک آئی' نے بتایا کہ گیند وکٹوں میں نہیں لگتی۔ یوں ایک مرتبہ پھر ڈی آر ایس نے معین کی جان بچا لی لیکن تیسری ہی گیند پر پھر ایک بلند اپیل ہوئی، پھر آؤٹ دیا گیا، پھر ریویو لیا گیا اور 'جسے اللہ رکھے، اسے کون چکھے' کے مصداق معین پھر بچ گئے۔

جب دن کا کھیل اپنے اختتام تک پہنچا تو معین علی نے اس اننگز کو اپنی زندگی کے مشکل ترین 68 رنز قرار دیا۔ بنگلہ دیش کی جانب سے پہلا ٹیسٹ کھیلنے والے 18 سالہ مہدی حسن مرزا نے پانچ وکٹیں حاصل کیں، جس میں معین کی قیمتی وکٹ بھی شامل تھی۔ انگلستان اب 258 رنز 7 کھلاڑی آؤٹ پر اپنی پہلی اننگز دوبارہ شروع کرے گا۔ کیا قسمت معین کے علاوہ دوسرے بلے بازوں کا بھی ساتھ دے گی؟

Moeen-Ali