[کچھ یادیں، کچھ باتیں] ہارون رشید، پہلا ٹیسٹ اور ویسٹ انڈیز میں بے وقوفی
1977ء میں جب پاکستان کی قومی ٹیم آسٹریلیا اور ویسٹ انڈیز کے دورے پر روانہ ہوئی تو اس دستے میں پہلی مرتبہ مجھے شامل کیا گیا ۔ ابتدائی دو ٹیسٹ میچوں میں بارہویں کھلاڑی کے فرائض انجام دینے کے بعدآخری ٹیسٹ میں مجھے بالآخر پاکستانی ٹیسٹ کیپ دے دی گئی۔ سڈنی میں کھیلا جانے والا یہ ٹیسٹ پاکستان کے لئے بے حد یادگار ثابت ہوا ۔ عمران خان کی اعلیٰ کارکردگی کے باعث پاکستان، آسٹریلیا کو نہ صرف اس کی سرزمین پر شکست دینے میں کامیاب ہوا بلکہ سیریز ایک-ایک سے برابر بھی کرگیا۔ گو کہ یہ میچ عمران خان کا میچ ثابت ہوا جس میں انہوں نے 12 وکٹیں حاصل کیں مگر زندگی کے اس اولین ٹیسٹ میں میری کارکردگی بھی خاصی اچھی رہی۔ میں نے اپنی زندگی کی پہلی ٹیسٹ اننگز میں 57 رنز بنائے تھے۔ ایک ایسے موقع پر جب ابتدائی تین کھلاڑی محض 25 رنز پر پویلین واپس جاچکے ہوں اور ڈینس للی کی جارحانہ بالنگ بلے بازوں کے لئے تازیانہ بنی ہوئی ہو۔ ایسے موقع پر آپ ایک نووارد اور نوخیز سے اور کیا توقع ہو سکتی ہے؟ ماجد، صادق اور ظہیر عباس جیسے آزمودہ کھلاڑی للی کا شکار بن چکے تھے۔ قدرے خشک اور تیز چلتی ہوئی ہوا اور تماشائیوں کا للی، للی کا شور کسی بھی بلےبازکے اعتماد اور حوصلے کو پست کرنے کے لئے کافی تھا۔ ایسی صورت حال میں ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ سینئر کھلاڑی میری ہمت بندھاتےاور میدان میں جانے سے قبل مجھے کچھ ٹپس دیتے لیکن اس وقت مجھے بےحدمایوسی ہوئی جب میں نے پویلین میں سنا کہ کچھ کھلاڑی کپتان سے کہہ رہے تھے کہ ”ہارون کو ابھی نہ بھیجا جائے۔ ہارون جیسے نئے کھلاڑی کے لئے خطرناک للی کا سامنا کرناکوئی آسان بات نہیں ہے۔“ ایک ساتھی کھلاڑی نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ”یہ تو کپتان کا غیردانشمندانہ فیصلہ ہےکہ انہوں نے اتنے اہم میچ میں وسیم راجہ کی جگہ ہارون کوموقع دیا ہے۔“
خیر جناب، اس ٹیسٹ میں جب میں نے انتہائی نامساعد حالات میں پاکستان کے لئے ایک لمبی شراکت داری قائم کی اور میرا اسکو 50 تک پہنچا تو میں نے پویلین کی طرف، جہاں کھلاڑی بیٹھے ہوتے ہیں، بلّا اٹھا کردیکھا تو مجھے بے حد خوشی ہوئی کہ جو کھلاڑی میرے انتخاب پر تنقید کررہے تھے وہی کھڑے ہوکر تالیاں بجاتے ہوئے مجھے خراج تحسین پیش کررہے تھے۔ اس دن سے میرا یہ عقیدہ اور پکا ہوگیا کہ عزت اور ذلت سب میرے اللہ کے ہاتھ میں ہےاور لاکھ کوئی برا چاہے، ہوتا وہی ہے جو اللہ کو منظورہوتا ہے۔دوسرے دن آسٹریلوی اخبارات نے میرے کیریئر کی کامیاب ابتداء کی بڑی بڑی سرخیاں لگائیں اور اس وقت کے آسٹریلوی منیجر نے کہا کہ ”کرکٹ کے اس جن کو پاکستان کی سلیکشن کمیٹی نے اتنی تاخیر سے ٹیسٹ کھیلنے کا موقع کیوں دیا۔“
آسٹریلوی دورے کے فوراً بعد ہمارا ویسٹ انڈیز کا دورہ تھا۔ اس طویل دورے میں ہم کھلاڑیوں کے ساتھ بہت سے دلچسپ اور یادگار واقعات رونما ہوئےجس میں سے چند تو بے حد مشہور بھی ہوئےاور آپ لوگوں نے سن بھی رکھے ہوں گے۔ جیسے مینڈکوں کی ڈش والا واقعہ جسے ہم سب پہاڑی مرغی سمجھ کر کھا گئے تھے یا وسیم باری اور ظہیر عباس والا واقعہ جب یہ دونوں تیراکی شوق میں ڈوبتے ڈوبتے بچے تھے۔ لیکن اس دورے میں چند واقعات ایسے بھی ہوئے تھے جو دلچسپ تو بہت تھے لیکن ان کو زیادہ شہرت نہ مل سکی۔ پاکستانی کھلاڑیوں کا ہمیشہ سے یہ وطیرہ رہا ہے کہ وہ نئے لڑکوں کو جو ٹیم کے ساتھ پہلی مرتبہ کسی دورے پر جاتے ہیں، خوب بیوقوف بناتے ہیں اور لطف اندوز ہوتے ہیں۔ یہ سب حرکتیں سینئرز اس لئے کرتے ہیں کہ جونیئرز کی جھجک ختم ہو ۔ ویسٹ انڈیز کےاس دورے میں، میں بالکل نیا تھا۔ لہٰذا میں تمام سینئرز کا نشانہ بنتا رہا۔ پورٹ آف اسپین میں ہم ایک دعوت میں مدعوتھے۔ عشائیے میں کافی لوازمات تھے۔ ہم لوگ بڑی احتیاط سے کھانا کھارہے تھے کہ کہیں کوئی حرام چیز ہمارے کھانے میں مکس نہ ہوجائے۔ تھوڑے فاصلے پر پھلوں کے ساتھ نارنگی کی پھانکیں بڑی خوبصورتی سے سجی رکھی تھیں۔ سابق فاسٹ باؤلر سلیم الطاف میرے قریب آئے اور کہنے لگے ”ہارون ذرا دوچار پھانکیں اٹھا دو“ میں تیزی سے ایک پلیٹ اٹھا کر وہاں تک پہنچا لیکن جیسے ہی میں ایک پھانک اٹھانے کی کوشش کی میرا ہاتھ کریم سے لت پت ہوگیااور ہمارے ساتھیوں نے ایک زبردست قہقہہ مارا۔ قہقہہ سن کرمجھے یقین ہوگیا کہ واقعی مجھ سے بے وقوفی سرزد ہوچکی ہے۔ وہ دراصل نارنگی کی پھانکیں نہیں بلکہ آئس کریم تھی جسے وہاں کے روایتی انداز میں سجایا گیا تھا۔ یہ ہمارے سینئرز کی شرارت تھی کہ انہوں نے جانتے بوجھتے مجھے بے وقوف بنایا۔